میرےوالد صاحب کا 2007 میں انتقال ہو گیا تھا اس کے بعد میری والدہ نے ساری ذمہ داریاں سنبھالی اور میری اور میرے بھائی کی شادی کی جبکہ ایک بہن پہلے سے شادی شدہ تھی (والد کی زندگی میں )اور ایک بہن کنواری ہے میرے والدنے جو تر کہ چھو ڑا اس میں ایک مکا ن ڈبل سٹوری، 2دوکانیں، 3پوپ کا رن مشین بنانے کاکا روبارتھا ۔ 2 دوکانیں اور مکان کی پہلی منزل کرائے پردی ہوئی ہے ایک دوکان اورمکان (پہلی منزل )کاکرایہ میری والدہ لیتی ہیں ،ایک چھوٹی دوکان کا کرایہ بھائی لیتاہے اور کاروبار بھائی چلارہا ہے ،اور اس کی آمدنی سے اپنا خرچہ چلارہاہے میں نے اپنی والدہ سے مختلف اوقات میں کرائے سے حصہ لینا کا مطالبہ کیا ہے لیکن وہ اپنی مجبوریاں بیان کرتی ہیں اور مجھ سے مزید دو سال انتظار کی در خواست کر تی ہیں وہ کہتی ہیں کہ دوسال تک چھوٹی بہن کی شادی ہو جائے تو بعد میں سب کو حصے دوں گی ۔
ایک سوال یہ ہے کہ میرےشوہر کا حج پر جانے کا ارادہ پچھلے چھ سال سے ہے (2011سےکو شش کرر ہے ہیں )میں بھی ان کے ساتھ حج پر جانا چاہ رہی ہو مجھے اپنی ضروریات کے علاوہ حج کےلئے بھی پیسوں کی ضرورت ہے اور والدہ بھی اپنی مجبوریوں کی وجہ سے مزید دوسال انتظار کاکہتی ہیں مجھے کیا کر نا چائیے ،واضح رہے کہ ہم دونوں پر حج تقریباً2010 /2011،میں حج فرض ہواتھا ۔
میراوراثت میں کیا حصہ ہے ؟اور کس کس چیز میں حصہ ہے ؟ورثاءکی تفصیل :بیوی ،ایک بیٹا،تین بیٹیاں ۔
نمبر1:۔ صورتِ مسئولہ میں فریضہحج کی ادائیگی آپ کے ذمہ میں لازم ہےاس لئے اس کے لئے مسلسل کوشش کرتے رہیں اوراس مقصد کے لئے اپنی والدہ اور بھائی سے بھی اچھے طریقے سےاپنے حصۂ میراث کامطالبہ کرتے رہیں،اور ان کوبھی چاہیئے کہ میراث کی تقسیم میں بلاوجہ تاخیرنہ کریں ۔
نمبر2:۔صورتِ مسئولہ میں مرحوم نےانتقال کے وقت اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیرمنقولہ مال وجائیداد، مکان، کارخانہ، پلاٹ، سونا،چاندی، نقدی،مالِ تجارت،کپڑے،برتن اور چھوٹا بڑا جو بھی گھرکا سازوسامان چھوڑا ہے اورجوآمدنی وکرایہ مرحوم کےمکان ودکان وغیرہ سے حاصل ہواہے یاآئندہ تقسیم سے قبل حاصل ہوگاوہ سب مرحوم کا ترکہ ہے۔ اس میں سے سب سےپہلے مرحوم کے کفن و دفن کے متوسّط اخراجات نکالےجائیں، اگر کسی اور نے یہ اخراجات اپنی طرف سے بطور احسان ادا کر دیئے ہوں تو پھر یہ اخراجات مرحوم کے ترکہ میں سے نہیں نکالے جائیں ، اس کے بعد دیکھیں اگر مرحوم کے ذمہ کسی کا قرض واجبُ الاداء ہو تو اس کو ادا کریں ،اوربیوہ کا مہر اگر ادا نہیں کیا اور بیوہ نے اپنی خوشی سے معاف بھی نہیں کیا تو وہ بھی مرحوم کے ذمہ قرض ہے، لہٰذا اسے بھی ادا کریں۔ اس کے بعد دیکھیں کہ اگرمرحوم نےاپنی زندگی میں غیروارث کے لئے کوئی جائزوصیت کی ہو تو بقیہ مال کے ایک 3/1تہائی کی حدتک اس وصیت پر عمل کریں،اس کے بعد جو ترکہ بچ جائے اس کے کل (40)برابر حصے کرکے مرحوم کی بیوہ کو(5) حصے اور فی بیٹی کو (7)حصے اور بیٹے کو (14) حصے دے دیں۔