بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

جو شخص طواف اور سعی کے چکروں کی گنتی بھول جاتا ہو تو وہ کیا کرے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں علماءِکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے عمر سے پچاس ہزار قرض مانگاتو عمر نے انکار کردیا کہ پچاس ہزار کے بدلے مجھے پچاس ہزار ہی ملیں گے تو زید(مستقرض ) نے عمر کو کہا کہ بکر کے پاس پچاس ہزار والا موبائل ہے آپ وہ موبائل اس سے خرید کر مجھے دے دیں میں آپ کو کچھ مدت بعد اس کی قیمت ساٹھ ہزار دوں گا چناچہ عمر نے ایسا ہی کیا جب کہ دوسری طرف زید (مستقرض )نے بکر ( جس سے عمر نے زید کے مشورے سے موبائل خریدا ) سے یہ طے کر رکھا تھا کہ جب یہ موبائل میرے پاس آئے گا تو میں پچاس ہزار کے بدلے واپس آپ کو فروخت کر دوں گا ۔ اب زید اور بکر کے مابین اس شرط کی وجہ سے بکر اور عمر کے درمیان جو معاملہ ہوا اس میں شرعاً کوئی خرابی آئے گی کہ نہیں؟ اور اگر خرابی آتی ہے تو اس کا شرعی حل کیا ہے کہ جس کے ذریعے عمر کا فائدہ ہو؟

جواب

سوال میں ذکر کردہ صورت سود کھانے کا ہی ایک حیلہ ہے اور بیع عینہ کی ناجائز صورت میں داخل ہے اس لئے یہ صورت جائز نہیں۔البتہ اس کے جواز کی صورت یہ کہ زید (مستقرض) موبائل بکر کے بجائے کسی اور کو بیچ دے تو ایسی صورت میں معاملہ جائز ہو جائے گا بکر کو بیچنے کی صورت میں جائز نہ ہوگا ۔
الدر المختار (5/ 325) دار الفکر
(أمر) الأصيل (كفيله ببيع العينة) أي بيع العين بالربح نسيئة ليبيعها المستقرض بأقل ليقضي دينه، اخترعه أكلة الربا، وهو مكروه مذموم شرعا لما فيه من الإعراض عن مبرة الإقراض۔
رد المحتار (5/ 325) دار الفکر
(قوله: أمر كفيله ببيع العينة) بكسر العين المهملة وهي السلف، يقال باعه بعينة: أي نسيئة مغرب:وفي المصباح وقيل لهذا البيع عينة؛ لأن مشتري السلعة إلى أجل يأخذ بدلها عينا أي نقدا حاضرا اهـ، أي قال الأصيل للكفيل اشتر من الناس نوعا من الأقمشة ثم بعه فما ربحه البائع منك وخسرته أنت فعلي فيأتي إلى تاجر فيطلب منه القرض ويطلب التاجر منه الربح ويخاف من الربا فيبيعه التاجر ثوبا يساوي عشرة مثلا بخمسة عشر نسيئة فيبيعه هو في السوق بعشرة فيحصل له العشرة ويجب عليه للبائع خمسة عشر إلى أجل أو يقرضه خمسة عشر درهما ثم يبيعه المقرض ثوبا يساوي عشرة بخمسة عشرة، فيأخذ الدراهم التي أقرضه على أنها ثمن الثوب فيبقى عليه الخمسة عشر قرضا درر.ومن صورها أن يعود الثوب إليه كما إذا اشتراه التاجر في الصورة الأولى من المشتري الثاني ودفع الثمن إليه ليدفعه إلى المشتري الأول، وإنما لم يشتره من المشتري الأول تحرزا عن شراء ما باع بأقل مما باع قبل نقد الثمن.(قوله: أي بيع العين بالربح) أي بثمن زائد نسيئة: أي إلى أجل وهذا تفسير للمراد من بيع العينة في العرف بالنظر إلى جانب البائع، فالمعنى أمر كفيله بأن يباشر عقد هذا البيع مع البائع بأن يشتري منه العين على هذا الوجه؛ لأن الكفيل مأمور بشراء العينة لا ببيعها، وأما بيعه بعد ذلك لما اشتراه فليس على وجه العينة؛ لأنه يبيعها حالة بدون ربح.(قوله: وهو مكروه) أي عند محمد، وبه جزم في الهداية۔
     الفتاوى الهندية (6/ 390) دار الفکر
فنقول: مذهب علمائنا – رحمهم الله تعالى – أن كل حيلة يحتال بها الرجل لإبطال حق الغير أو لإدخال شبهة فيه أو لتمويه باطل فهي مكروهة وكل حيلة يحتال بها الرجل ليتخلص بها عن حرام أو ليتوصل بها إلى حلال فهي حسنة۔
بحوث فی  قضایا فقھیۃ معاصرۃ(2/61)دارالعلوم کراتشی
ثالثا جواز ھذا البیع مشروط بان لا یبیع المشتری السلعۃ  بثمن اقل مما اشتراھا بہ علی بائعہ الاول ،لا مباشرۃ ولا بالواسطۃ،فان فعل ،فقد وقعا فی بیع العینۃ المحرم شرعا،لاشتمالہ علہ حیلۃ الربا ،فصار عقدا محرما۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس