چند مسائل کے بارے میں جواب مطلوب ہے
رفع و نزول عیسٰی علیہ السلام کے منکرین کے بارے میں شرعا ً کیا حکم ہے اور اسی طرح قادیانی وفات عیسٰی علیہ السلام پر بطور دلیل کے یہ آیت مبارکہ پیش کرتے ہیں
وما محمد الا رسول قد قد دخلت من قبله الرسل
دوسری آیت وما جعلنا لبشر من قبلك الخلد افائن مت فهم الخلدون
ترجمہ: اور ہم نے تم سے پہلے کسی آدمی کے لیے دنیا میں ہمیشگی نہ بنائی تو کیا اگر تم انتقال فرماؤ تو یہ ہمیشہ رہیں گے۔
اذ قال الله يعيسى اني متوفيك ورافعک الي ومطهرك من الذين كفروا۔۔۔الخ
قادیانی اشکال ایک طرف تمہارا عقیدہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں دوسری طرف نزول عیسٰی کا عقیدہ عقیدہ ختم نبوت کی نفی ہے۔
نزول عیسٰی علیہ السلام کے حوالے سے بعض احادیث میں قیامت کے قبل 40 سال کا عرصہ آیا ہے اور بعض میں 45 سال کا ان میں تطبیق کیسے ہوگی۔۔؟
تمام سوالوں کا جواب تفصیل سے عنایت فرمائیں تو آپ کی عنایت ہوگی جزاک اللہ خیرا
نمبر1۔رفع و نزول ِعیسٰی علیہ السلام
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر اب تک مسلمانوں کا یہ متواتر اور قطعی عقیدہ ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام زندہ آسمانوں پر اٹھا لیے گئے تھے اور قربِ قیامت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کی حیثیت سے ان کا نزول ہوگا اس اجماعی اور متواتر عقیدے کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔
نمبر(١) وما محمد الا رسول قد خلت من قبله الرسل اس أیت مبارکہ سے قادیانیوں کا حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات پر استدلال کرنا بالکل غلط ہے ، کیونکہ لفظ خلت کو بمعنی موت لینا صریح غلطی ہے ، “خلت” لفظ خلو سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی ہیں جگہ خالی کرنا یا گزرنا اور جن چیزوں پر زمانہ گزرتا ہے ان کو بھی تبعاً خلو سے بیان کر دیتے ہیں ۔ مثلا : واذا خلوا الى شياطينهم ترجمہ : اور جب وہ خلوت میں پہنچتے ہیں آپنے شوہروں سرداروں کے پاس ۔ تلك امۃ قد خلت ترجمہ : یہ ایک جماعت ہے مجھے گزر چکی بہرحال خلوقکے معنی جگہ خالی کرنا خواہ زندہ گزار کر یا موت سے یا ایک جگہ سے دوسری جگہ ہٹ کر ہو لہذا سیدنا عیسٰی علیہ السلام کی حیات پر دلائل قطعی ہونے کی وجہ سے یہاں خلو سے موت مراد لینا قران میں تحریف ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے ۔
نمبر(٢) وما جعلنا لبشر من قبلك الخلد افائن مت فهم الخالدون مذکورہ آیت سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیشہ زندہ رہنا کسی کے لیے طے نہیں کیا، قادیانیوں کا وفاتِ سیدنا مسیح علیہ السلام پر اس آیت سے استدلال کرنا بھی درست نہیں کیونکہ قران میں واضح طور پر آیا ہے وان من اهل الكتاب الا ليؤمنن به قبل موته ترجمہ: اور اہل کتاب میں سے کوئی نہ رہے گا مگر وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام پر ان کی موت سے پہلے ایمان لائے گا ۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا عیسٰی علیہ السلام کو بھی موت آئے گی لیکن اس وقت جب سبھی اہل کتاب ان کے ہاتھ پر ایمان لے آئیں گے لہذا یہ تبھی ممکن ہے جب سیدنا عیسٰی علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں اور پھر اپنی طبعی موت سے اس دنیا سے رحلت فرمائیں اور اس وقت موجود سبھی لوگ ان کے ہاتھ پر ایمان لے آئیں ۔
نمبر(٣) اذ قال الله يا عيسى اني متوفيك ورافعك الي ومطهرك من الذين كفروا یہ آیت مبارکہ سیدنا عیسٰی علیہ السلام کی حیات پر دلیل ہے نہ کہ ان کی وفات پر ، قادیانی آیت مبارکہ میں لفظ “متوفیک” سے موت مراد لیتے ہیں جبکہ توفی کاحقیقی معنی موت نہیں ہے توفی جس کے حروف اصلی (وف ی )ہیں جس کے معنی ہیں پورا کرنا یا پورا وصول کرنا ہے چنانچہ عرب کہتے : وفی بعہدہ یعنی اپنا وعدہ پورا کیا ۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے یہودیوں کی سازش کی وجہ سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی تسلی کے لیے ان سے یہ وعدہ فرمایا متوفیک: تجھے پورا پورا لے لوں گا ورافعک الی: تجھے اپنی طرف آسمانوں میں اٹھا لوں گا ومطھرک : مخالفین کے شر سے بچا لوں گا وجاعل الذين اتبعوك فوق الذين كفروا : تیرے متبعین کو دشمنوں پر غالب رکھوں گا لہذا دیگر صریح اور قطعی دلائل کے ہوتے ہوئے اس آیت سے سیدنا عیسٰی علیہ السلام کی وفات کو ثابت کرنا غلط ہے بلکہ اس آیت سے تو آپ علیہ السلام کا زندہ اس دنیا سے اٹھایا جانا ثابت ہوتا ہے ۔ وما قتلوه يقينابل رفعه الله اليه (النساء 158) ترجمہ : اور اس کو قتل نہیں کیا بے شک ، بلکہ اس کو اٹھا لیا اللہ تعالی نے اپنی طرف وقولهم انا قتلنا المسيح عيسى ابن مريم رسول الله وما قتلوه وما صلبوه ولكن شبه لهم ترجمہ ان کا یہ کہنا کہ اللہ کے رسول مسیح عیسٰی علیہ السلام کو قتل کر دیا تھا، حالانکہ انہوں نے عیسٰی علیہ السلام کو قتل کیا تھا نہ انہیں سولی دے پائے تھے بلکہ انہیں اشتباہ ہو گیا تھا ۔
نمبر2۔ قادیانی اشکال کا جواب : نزول عیسٰی علیہ السلام کا عقیدہ، ختم نبوت کے عقیدے پر ہرگز نفی نہیں ہے کیونکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو بھی نبوت عطا نہیں ہوگی جب کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے کم و بیش پانچ سو سال پہلے ہی نبوت مل چکی تھی اور حضرت عیسٰی علیہ السلام اپنی سابقہ نبوت پر برقرار رہتے ہوئے بطور حاکم اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کی حیثیت سے نازل ہوں گے لہذا عیسٰی علیہ السلام کا نزول ختم نبوت کے عقیدے پر ہرگز نفی نہیں ہے ۔
نمبر3۔ نزول عیسٰی علیہ السلام کے بعد قیامت تک کا عرصہ : راجھ قول یہی ہے کہ سیدنا عیسٰی علیہ السلام کا نزول قیامت سے 40 سال قبل ہوگا لیکن بعض کمزور درجے کی روایت میں 45 سال کا ذکر بھی آیا ہے، ان روایات میں تطبیق ایسے ہوگی کہ قاعدہ ہے کہ (القلیل لا ینای الکثیر )قلیل مدت کثیر کے منافی نہیں ہے یعنی چھوٹا عدد بڑے عدد میں شامل ہوتا ہے، 45 سال میں 40 سال بھی شامل ہیں ۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ 40 سال کا ذکر تعداد میں کسر کو ختم کرنے کے لیے آیا ہے۔
تفسير ابن كثير(7/ 236) دار طيبة للنشر والتوزيع
وقوله: {وإنه لعلم للساعة} : تقدم تفسير ابن إسحاق: أن المراد من ذلك: ما بعث به عيسى، عليه السلام، من إحياء الموتى وإبراء الأكمه والأبرص، وغير ذلك من الأسقام. وفي هذا نظر. وأبعد منه ما حكاه قتادة، عن الحسن البصري وسعيد بن جبير: أي الضمير في {وإنه} ، عائد على القرآن، بل الصحيح أنه عائد على عيسى [عليه السلام] (4) ، فإن السياق في ذكره، ثم المراد بذلك نزوله قبل يوم القيامة، كما قال تبارك وتعالى: {وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته} أي: قبل موت عيسى، عليه الصلاة والسلام، ثم {ويوم القيامة يكون عليهم شهيدا} [النساء: 159]
إكفار الملحدين (ص: 11) المجلس العلمي – باكستان
إنه قد تواتر، وانعقد الإجماع على نزول عيسى بنة مريم عليه السلام، فتأويل هذه وتحريفه كفر أيضاً. وقد قال في “روح المعاني” – وهو من محققي المتأخرين -: إن من لم يقل بنزوله فقد أكفره العلماء، وهو على القاعدة في إنكار ما تواتر في الشرع
إكفار الملحدين (ص: 11) المجلس العلمي – باكستان
ان الكفر هو جحد الضروريات من الدين او تأويلها
تفسير ابن كثير (7/ 236) دار طيبة للنشر والتوزيع
وقد تواترت الأحاديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه أخبر بنزول عيسى [ابن مريم] (6) ، عليه السلام قبل يوم القيامة إماما عادلا وحكما مقسطا
الأسماء والصفات للبيهقي (2/ 331) مكتبة السوادي
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كيف أنتم إذا نزل ابن مريم من السماء فيكم وإمامكم منكم» . رواه البخاري في الصحيح عن يحيى بن بكير، وأخرجه مسلم من وجه آخر عن يونس. وإنما أراد نزوله من السماء بعد الرفع إليه
صحيح مسلم (4/ 2253) دار إحياء التراث العربي – بيروت
إذ بعث الله المسيح ابن مريم، فينزل عند المنارة البيضاء شرقي دمشق، بين مهرودتين، واضعا كفيه على أجنحة ملكين، إذا طأطأ رأسه قطر، وإذا رفعه تحدر منه جمان كاللؤلؤ، فلا يحل لكافر يجد ريح نفسه إلا مات، ونفسه ينتهي حيث ينتهي طرفه، فيطلبه حتى يدركه بباب لد، فيقتله، ثم يأتي عيسى ابن مريم قوم قد عصمهم الل منه، فيمسح عن وجوههم ويحدثهم بدرجاتهم في الجنة، فبينما هو كذلك إذ أوحى الله إلى عيسى: إني قد أخرجت عبادا لي، لا يدان لأحد بقتالهم، فحرز عبادي إلى الطور۔
الاشاعۃلاشراط الساعۃ (ص 272)
وفی روایۃ : (خمسۃ واربعین سنۃ) القلیل لا ینافی الکثیر، ولعل روایات الاربعین وردت بالغاء الکسر، وفی روایۃ : (سبع سنین) وجمع بعضھم بانہ کان حین رفع ابن ثلاث و ثلاثین وینزل سبعاً ؛ فھذہ اربعون، وقد علمت ان القلیل لا ینافی الکثیر فلا حاجۃ الی ھذا الجمع۔
عمدة القاري (16/ 40) دار إحياء التراث العربي – بيروت
وقيل يتزوج ويولد له ويمكث خمسا وأربعين سنة ويدفن مع النبي – صلى الله عليه وسلم – في قبره وقيل يدفن في الأرض المقدسة وهو غريب
مرقاة المفاتيح (8/ 3496) دار الفكر، بيروت – لبنان
(عن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله – صلى الله تعالى عليه وسلم: «ينزل عيسى ابن مريم إلى الأرض، فيتزوج، ويولد له، ويمكث خمسا وأربعين سنة» ) ، وهذا بظاهره يخالف قول من قال: إن عيسى رفع به إلى السماء، وعمره ثلاث وثلاثون، ويمكث في الأرض بعد نزوله سبع سنين، فيكون مجموع العدد أربعين، لكن حديث مكثه سبعا رواه مسلم فيتعين الجمع بما ذكر، أو ترجيح ما في الصحيح، ولعل عدد الخمس ساقط من الاعتبار لإلغاء الكسر۔