بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

کفر اور عدمِ کفر کے احتمال رکھنے والے الفاظ بولنے کا حکم

سوال

مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیٹی کی کسی سے منگنی کروائی شادی کے لیے وقت متعین ہو گیا اب عین وقت شادی پر لڑکے والوں نے لڑکی کا مطالبہ کیا کہ اب ان دونوں کی شادی کروائیں لیکن لڑکی کے والد نے شدید ٹال مٹول کیا یہاں تک کہ اس نے کہا کہ میں اپنی بیٹی اس لڑکے کو نہیں دوں گا اگرچہ العیاذ باللہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام بھی آکر مجھے کہیں کہ اپنی بیٹی اس لڑکے کو دےدو تو میں نہیں دوں گا منگنی کا تعلق ختم ہو گیا ۔
نمبر(1)کیا لڑکی نہ دینے کے لیے اس قدر سخت الفاظ کہنے سے یہ شخص کافر ہو جاتا ہے یا نہیں یا فاسق ہو جاتا ہے ؟جمیع عبادات کرنے کی صورت میں جب کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھ رہا ہے ۔
نمبر(2)کیا اس کو کوئی شخص کافر یا مرتد یا فاسق کہہ سکتا ہے ؟کیا اس طرح کے شخص کو کافر یا مرتد یا منافق کہنے والا گنہگار ہوگا یا نہیں؟

جواب

مذکورہ جملہ کہنے سے کفر کا اندیشہ ہے ۔کیو نکہ مذکورہ جملہ میں یہ احتمال موجود ہے کہ شخصِ مذکور کا نبی علیہ السلام کے حکم کا انکار مقصود نہ ہو بلکہ آپ علیہ السلام کے مشورہ کو نہ ماننا مقصود ہو ،اس کی ایک نظیر حدیث پاک میں بھی ہے کہ جب نبی علیہ السلام نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنھا کو سابق شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے فرمایا تو حضرت بریرہ رضی اللہ عنھانے کہا کہ یا رسول اللہ آپ کا حکم ہے یا مشورہ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ حکم نہیں اس کے بعد حضرت بریرہ رضی اللہ عنھا نے حضورصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے اس مشورہ پر عمل نہیں کیا ۔لہٰذا لڑکی کے باپ کو چاہیے کہ توبہ و استغفار کرے اور احتیاطا ً تجدید ِایمان و نکاح کرے ۔لیکن دوسرے لوگوں کے لیے محض اس وجہ سے اس کو کافر کہنا قطعاً جائز نہیں ۔
مشكاة المصابيح (2/276) حبيبيه رشيديه
وعن ابن عباس قال: كان زوج بريرة عبدا أسود يقال له مغيث كأني أنظر إليه يطوف خلفها في سكك المدينة يبكي ودموعه تسيل على لحيته فقال النبي صلى الله عليه وسلم للعباس: «يا عباس ألا تعجب من حب مغيث بريرة؟ ومن بغض بريرة مغيثا؟» فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «لو راجعته» فقالت: يا رسول الله تأمرني؟ قال: «إنما أشفع» قالت: لا حاجة لي فيه. رواه البخاري
الفتاوى الهندية (2/281) دار الكتب العلمية
إذا قال: لو أمرني الله بكذا لم أفعل فقد كفر كذا في الكافي
الفتاوى الهندية (2/287) دار الكتب العلمية
رجل أراد أن يضرب عبده فقال له رجل: لا تضربه فقال: اكر محمد مصطفى كويد مزن سهلم، أو قال: اكراز آسمان بانك آيد كه مزن هم بزنم(1) يلزمه الكفر
(1)أي إن كان محمد المصطفي يقول لي لا تضربه لا أتركه أو قال: إن كان يأتي صوت من السماء بأن لا تضربه أضربه أيضاً
الفتاوى الهندية (2/01 3) دار الكتب العلمية
رجل كفر بلسانه طائعا، وقلبه مطمئن بالإيمان يكون كافرا ولا يكون عند الله مؤمنا
كذا في فتاوى قاضي خان(3/513) رشیدیة
الدر المختار(4/ 222) سعيد
وفي الفتح من هزل بلفظ كفر ارتد وإن لم يعتقده للاستخفاف فهو ككفر العناد
رد المحتار(4/ 222) سعيد
(قوله من هزل بلفظ كفر) أي تكلم به باختياره غير قاصد معناه، وهذا لا ينافي ما مر من أن الإيمان هو التصديق فقط أو مع الإقرار لأن التصديق، وإن كان موجودا حقيقة لكنه زائل حكما لأن الشارع جعل بعض المعاصي أمارة على عدم وجوده كالهزل المذكور………. قلت: ويظهرأن ما كان دليل الاستخفاف يكفر به، وإن لم يقصد الاستخفاف لأنه لو توقف على قصده لما احتاج إلى زيادة عدم الإخلال بما مر لأن قصد الاستخفاف مناف للتصديق (قوله فهو ككفر العناد) أي ككفر من صدق بقلبه وامتنع عن الإقرار بالشهادتين عنادا ومخالفة فإنه أمارة عدم التصديق
الفتاوي التاتار خانية (7\306) فاروقية كوئتة
رجل قال لامرأته :مراسیم نیست فقالت إمراته :إنك تکذب فقال الرجل : لو شهد الأنبیاء والملائکة عندک که مراسیم نیست لا تصدقيهم؟ فقالت نعم لا أصدقهم ذکر فی مجموع النوازل : انها تکفر

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس