مفتیان صاحبان ہمیں درج ذیل سوالات کے جوابات قرآن وسنت کی روشنی میں دیں
نمبر1 – کلمہ طیبہ سے کس طرح نبی کریم ﷺ کا آخری نبی ہو نا ثابت ہے ، دلیل دیں۔
نمبر 2- وما أرسلنك إلا رحمة للعالمین والی آیت قرآن و سنت سے دلیل دے کر ثابت کریں کہ یہ نبی کریم ﷺ کی شانِ مبارکہ میں نازل ہوئی۔
نمبر3- اللہ تعالی نے صرف نبی کریم ﷺ کو ہی کیوں نبیوں کی امامت کے لئے چنا؟ دلیل دیں۔
نمبر4۔ قرآن سے دلیل دے کر ثابت کریں کہ نام محمد ﷺ کو جلانا توہینِ رسالت ہے۔ امید ہے کہ آپ صاحبان ان سوالات کے جوابات قرآن وسنت کی روشنی میں دے کر تسلی بخش جواب فرمائیں گے،
اللہ تعالی آپ صاحبان کے علم و عمل اور عمر میں برکتیں عطا فرمائے، آمین۔ والسلام
نمبر1-تمہیداً یہ بات جاننا ضروری ہے کہ کلمہ طیبہ مسلمان کے عقیدہ توحید و رسالت کے اجمالی ایمان کو ظاہر کرنے کے لیے پڑھا جاتا ہے،قرآن کریم میں اس کلمہ کا تذکرہ ایک ساتھ نہیں آیا، بلکہ اس کے دونو ں اجزاء علیحدہ علیحدہ مختلف جگہ آئے ہیں جیسے: سورۃصافات میں کلمہ کا پہلا جزء”اذا قیل لھم لا الہ اللہ یستکبرون”(آیت:35)اور سورۃفتح میں “محمد رسول اللہ “(آیت:29)آیا ہے ،البتہ حدیث مبارکہ عقیدہ توحید و سالت اکھٹے مذکور ہیں۔
عن ابن عمر، رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ” بني الإسلام على خمس: شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله۔۔۔
حضرت عبد الله ابن عمر ر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے : گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔(صحیح البخاری ،کتاب الایمان) ۔
رسالتِ مآب ﷺ کی ختم نبوت کے ثبوت کے لیے اللہ تعالی ٰ نے قرآنِ کریم میں تقریباً سو آیات نازل فرمائی ہیں ،متعدد آیات ان میں بہت ہی واضح اور ظاہر ہیں ، نیز آپ ﷺ کی زبان مبارک سے سینکڑوں احادیثِ مبارکہ اس عقیدے کے ایمانی جزء ہونے پر واضح طور پر وارد ہوئی ہیں ، یہ عقیدہ تواتر کے ساتھ امت میں چلا آرہا ہے اور تمام صحابہ ،محدثین ، فقہاء اور صوفیاء کا متفقہ اور مسلمہ عقیدہ ہے ۔
جب حضور ﷺ کی ختم ِ نبوت کا عقیدہ قرآنی آیات ،احادیث متواترہ اور اجماعِ امت کی روشنی میں خوب واضح اور مبرھن ہے تو ان جیسے قطعی اور مستحکم دلائل کے ہوتے ہوئے اگر کلمہ طیبہ سے ختم نبوت کا ثبوت سمجھ نہ بھی آئے یا اس استدلال نہ بھی ہوتا ہو تو کوئی حرج اور ضروری نہیں،کیونکہ اس بارے میں واضح اور قطعی آیات و احادیث وغیرہ موجود ہیں جبکہ کلمہ طیبہ تو صرف ایمان کے اظہار کے لیے پڑھا جاتا ہے ، اور اس کی تشریحات قرآن کی آیات ،احادیث نبویہ اور اجماعِ امت سے ہی معلوم ہوں گی؛لہذا اس کلمہ سے زیادہ واضح اور قطعی آیاتِ قرآنیہ ہی سے ختمِ نبوت و رسالت کو ثابت اور بیان کرنا چاہیے۔
نمبر2-‘وما أرسلناک الا رحمۃ للعالمین” کا مصداق اور مخاطب آپﷺ ہی ہیں اور اس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں
الف- علامہ ابنِ کثیرؒ اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: وقوله [تعالى] : {وما أرسلناك إلا رحمة للعالمين} : يخبر تعالى أن الله جعل محمدا صلى الله عليه وسلم رحمة للعالمين، أي: أرسله رحمة لهم كلهم ،یعنی اللہ تعالی ٰ اس بات کی خبر کی اس آیت کے ذریعے خبر دے رہے ہیں کہ اس نے محمدﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنایا ۔
ب-صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ سے کہا گیا کہ مشرکین کے حق میں بددعا کیجیے، تو آپ ﷺ نے فرمایا:” میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ، میں تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں” ۔ ج-مسند ِ احمد میں ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ،فرماتے ہیں آپﷺ نے فرمایا :ان اللہ بعثنی رحمۃ للعالمین ،وھدی للعالمین “یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام جہانو ں کے لیے رحمت اور ہدایت بنا کر بھیجا۔ د- یہ بات بدیہی ہے کہ قرآن کریم کا نزول آپ ﷺ پر ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں صراحتاً “وما ارسلناک”سے آپ کو خطاب فرمایا ،لہذا اس کا مصداق کسی اور کو ٹھرایا جانا عقلاً بھی درست نہیں۔ ھ-مزید دلائل حوالہ جات میں مذکور ہیں۔
نمبر3-واضح رہے کہ آپﷺ وجہِ تخلیقِ کائنات ہیں اللہ تعالیٰ نے تمام عالم کا نطام ،انبیاء کرام کا سلسلہ آپ ﷺ ہی کی وجہ سے جاری فرمایا اور اللہ تعالی نے تمام انبیاء کرام سے عہد لیا تھا میں تم میں آخری نبی بھیجوں گا اور تم لوگ اس پر ضرور ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ،نیز نبوت و رسالت اور انبیاء کی امامت کا منصب اور انبیاء کی ایک دوسرے پر فضیلت تکوینی امور میں سے ہے ،امور ِ شرعیہ و کسبیہ سے اس کا تعلق نہیں ،اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں ان مناصب پر فائز فرما دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں ایک دوسرے پر فضیلت عطا فرما دیتے ہیں “{تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ} [البقرة: 253] اس میں زیادہ غورو فکر کے ہم مکلف ہی نہیں ،بلکہ بعض اوقات اس میں زیادہ گفتگو گمراہی یا غلو کا سبب بن جاتی ہے ۔ نمبر4- قرآن و سنت کی روشنی میں فقہاءِکرام یہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص” نام ِ محمد” کو اس نیت و ارادے سے جلائے یا توہین کرے کہ اس کے ذہن میں اس سے مراد آپﷺ ہی کی ذات ہو تو یہ کفر ہے اور ایسا کرنے والا مقررہ سزا کا مستحق ہوگا،لیکن اگر کسی شخص کی کسی” محمد” نامی آدمی سے دشمنی ہو اور وہ اس کے نام کو جلائے تو اگرچہ یہ فعل بھی درست نہیں، لیکن چونکہ اس کے ذہن میں وہ شخص ہے جس سے اس کی دشمنی ہے اور عام سلیم الفطرت ذہن بھی اسی طرف جاتا ہے کہ یہ اپنے مخالف کے نام کو جلا رہا ہے تو اس سے کفر بھی لازم نہیں آئے گا ،تاہم اصول اور ضابطہ یہ ہے کہ ایسے حساس اور مقدس معاملات میں شریعت نے نیت و ارادے کو بنیاد بنایا ہے اور اس پر کسی بھی آدمی کی سابقہ و لاحقہ اقوال و اعمال کے قرائن دلالت کریں گے اوراسی سے معلوم کیا جائے گا کہ اس کی نیت و ارداہ کیا ہے پھر اس کے مطابق فیصلہ کیا جانا چاہیے۔
:کما قال اللہ تعالیٰ
1-{وإذ أخذ الله ميثاق النبيين لما آتيتكم من كتاب وحكمة ثم جاءكم رسول مصدق لما معكم لتؤمنن به ولتنصرنه قال أأقررتم وأخذتم على ذلكم إصري قالوا أقررنا قال فاشهدوا وأنا معكم من الشاهدين (81) فمن تولى بعد ذلك فأولئك هم الفاسقون (82) }(النساء)
2-ما كان محمد أبا أحد من رجالكم ولكن رسول الله وخاتم النبيين وكان الله بكل شيء عليما (الاحزاب،40)
3-اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا0المائدہ،3)۔
4-وإذ أخذ الله ميثاق النبيين لما آتيتكم من كتاب وحكمة ثم جاءكم رسول مصدق لما معكم لتؤمنن به ولتنصرنه۔(اٰل عمران،81)
5-وما أرسلناك إلا كافة للناس بشيرا ونذيرا ولكن أكثر الناس لا يعلمون (28،سبا)
6-إن هو إلا ذكر للعالمين (87،ص)
7-تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ(البقرۃ،253)
تفسير ابن كثير (3/ 70)
يقول تعالى مخاطبا أهل الكتاب من اليهود والنصارى: إنه قد أرسل إليهم رسوله محمدا خاتم النبيين، الذي لا نبي بعده ولا رسول بل هو المعقب لجميعهم؛ ولهذا قال: {على فترة من الرسل} أي: بعد مدة متطاولة ما بين إرساله وعيسى ابن مريم۔
تفسير ابن كثير (6/ 430)
والأحاديث في هذا كثيرة، فمن رحمة الله تعالى بالعباد إرسال محمد، صلوات الله وسلامه عليه، إليهم، ثم من تشريفه لهم ختم الأنبياء والمرسلين به، وإكمال الدين الحنيف له. وقد أخبر تعالى في كتابه، ورسوله في السنة المتواترة عنه: أنه لا نبي بعده؛ ليعلموا أن كل من ادعى هذا المقام بعده فهو كذاب أفاك، دجال ضال مضل، ولو تخرق وشعبذ، وأتى بأنواع السحر والطلاسم والنيرجيات ، فكلها محال وضلال عند أولي الألباب، كما أجرى الله، سبحانه وتعالى، على يد الأسود العنسي باليمن، ومسيلمة الكذاب باليمامة، من الأحوال الفاسدة والأقوال الباردة، ما علم كل ذي لب وفهم وحجى أنهما كاذبان ضالان، لعنهما الله. وكذلك كل مدع لذلك إلى يوم القيامة حتى يختموا بالمسيح الدجال، [فكل واحد من هؤلاء الكذابين] يخلق الله معه من الأمور ما يشهد العلماء والمؤمنون بكذب من جاء بها. وهذا من تمام لطف الله تعالى بخلقه، فإنهم بضرورة الواقع لا يأمرون بمعروف ولا ينهون عن منكر إلا على سبيل الاتفاق، أو لما لهم فيه من المقاصد إلى غيره، ويكون في غاية الإفك والفجور في أقوالهم وأفعالهم، كما قال تعالى: {هل أنبئكم على من تنزل الشياطين * تنزل على كل أفاك أثيم} الآية [الشعراء:221، 222] . وهذا بخلاف الأنبياء، عليهم السلام، فإنهم في غاية البر والصدق والرشد والاستقامة [والعدل] فيما يقولونه ويفعلونه ويأمرون به وينهون عنه، مع ما يؤيدون به من الخوارق للعادات، والأدلة الواضحات، والبراهين الباهرات، فصلوات الله وسلامه عليهم دائما مستمرا ما دامت الأرض والسموات۔
تفسير ابن كثير (6/ 428)
فهذه الآية نص في أنه لا نبي بعده، وإذا كان لا نبي بعده فلا رسول [بعده] بطريق الأولى والأحرى؛ لأن مقام الرسالة أخص من مقام النبوة، فإن كل رسول نبي، ولا ينعكس. وبذلك وردت الأحاديث المتواترة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم من حديث جماعة من الصحابة. قال الإمام أحمد: حدثنا أبو عامر الأزدي، حدثنا زهير بن محمد، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن الطفيل بن أبي بن كعب ، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: “مثلي في النبيين كمثل رجل بنى دارا فأحسنها وأكملها، وترك فيها موضع لبنة لم يضعها، فجعل الناس يطوفون بالبنيان ويعجبون منه، ويقولون: لو تم موضع هذه اللبنة؟ فأنا في النبيين موضع تلك اللبنة”۔
تفسير ابن كثير (5/ 385)
وقوله [تعالى] : {وما أرسلناك إلا رحمة للعالمين} : يخبر تعالى أن الله جعل محمدا صلى الله عليه وسلم رحمة للعالمين، أي: أرسله رحمة لهم كلهم، فمن قبل هذه الرحمة وشكر هذه النعمة، سعد في الدنيا والآخرة، ومن ردها وجحدها خسر في الدنيا والآخرة، كما قال تعالى: {ألم تر إلى الذين بدلوا نعمة الله كفرا وأحلوا قومهم دار البوار جهنم يصلونها وبئس (القرار} [إبراهيم: 28، 29] ، وقال الله تعالى في صفة القرآن: {قل هو للذين آمنوا هدى وشفاء والذين لا يؤمنون في آذانهم وقر وهو عليهم عمى أولئك ينادون من مكان بعيد} [فصلت: 44] . وقال مسلم في صحيحه: حدثنا ابن أبي عمر، حدثنا مروان الفزاري، عن يزيد بن كيسان، عن ابن أبي حازم، عن أبي هريرة قال: قيل: يا رسول الله، ادع على المشركين، قال: “إني لم أبعث لعانا، وإنما بعثت رحمة”. انفرد بإخراجه مسلم . وفي الحديث الآخر: “إنما أنا رحمة مهداة”. رواه عبد الله بن أبي عرابة، وغيره، عن وكيع، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة مرفوعا . ۔۔وقال الإمام أحمد: حدثنا معاوية بن عمرو، حدثنا زائدة، حدثني عمرو بن قيس، عن عمرو بن أبي قرة الكندي قال: كان حذيفة بالمدائن، فكان يذكر أشياء قالها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء حذيفة إلى سلمان فقال سلمان: يا حذيفة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم [كان يغضب فيقول، ويرضى فيقول: لقد علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم] خطب فقال: “أيما رجل من أمتي سببته [سبة] في غضبي أو لعنته لعنة، فإنما أنا رجل من ولد آدم، أغضب كما يغضبون، وإنما بعثني رحمة للعالمين، فاجعلها صلاة عليه يوم القيامة۔۔
تنوير المقباس من تفسير ابن عباس (ص: 276)
{وَمَآ أَرْسَلْنَاكَ} يَا مُحَمَّد {إِلاَّ رَحْمَةً} من الْعَذَاب {لِّلْعَالَمِينَ} من الْجِنّ وَالْإِنْس من آمن بك وَيُقَال نعْمَة۔۔
روح البيان (5/ 527)
وَما أَرْسَلْناكَ يا محمد بما ذكر وأمثاله من الشرائع والاحكام وغير ذلك من الأمور التي هى مناط السعادة فى الدارين فى حال من الأحوال إِلَّا حال كونك رَحْمَةً لِلْعالَمِينَ فان ما بعثت به سبب لسعادة الدارين ومنشأ لانتظام مصالحهم فى النشأتين ومن اعرض عنه واستكبر فانما وقع فى المحنة من قبل نفسه فلا يرحم وكيف كان رحمة للعالمين وقد جاء بالسيف واستباحة الأموال قال بعضهم جاء رحمة للكفار ايضا من حيث ان عقوبتهم أخرت بسببه وأمنوا به عذاب الاستئصال والخسف والمسخ ورد فى الخبر انه عليه السلام قال لجبريل (ان الله يقول وما أرسلناك الى آخره فهل أصابك من هذه الرحمة) قال نعم انى كنت أخشى عاقبة الأمر فامنت بك لثناء اثنى الله على بقوله ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ۔
التفسير المظهري (6/ 244)
وَما أَرْسَلْناكَ يا محمّد إِلَّا رَحْمَةً منصوب على العلية او على الحال من كاف الخطاب لِلْعالَمِينَ يعنى لرحمتنا على الانس والجن أرسلناك ليهتدوا بك او أرسلناك حال كونك رحمة يعنى سببا للرحمة روى الحاكم عن ابى هريرة وابن سعد والحكيم عن ابى صالح مرسلا انه قال رسول الله صلى الله عليه وسلم انما انا رحمة مهداة۔۔
تفسير ابن كثير (2/ 67)
قال علي بن أبي طالب وابن عمه عبد الله بن عباس، رضي الله عنهما: ما بعث الله نبيا من الأنبياء إلا أخذ عليه الميثاق، لئن بعث محمدا وهو حي ليؤمنن به ولينصرنه، وأمره أن يأخذ الميثاق على أمته: لئن بعث محمد [صلى الله عليه وسلم] (7) وهم أحياء ليؤمنن به ولينصرنه۔
تفسير ابن كثير (2/ 68)
عن الشعبي، عن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “لا تسألوا أهل الكتاب عن شيء، فإنهم لن يهدوكم وقد ضلوا، وإنكم إما أن تصدقوا بباطل وإما أن تكذبوا بحق، وإنه -والله-لو كان موسى حيا بين أظهركم ما حل له إلا أن يتبعني. وفي بعض الأحاديث [له] :”لو كان موسى وعيسى حيين لما وسعهما إلا اتباعي” . فالرسول محمد خاتم الأنبياء صلوات الله وسلامه عليه، دائما إلى يوم الدين، وهو الإمام الأعظم الذي لو وجد في أي عصر وجد لكان هو الواجب الطاعة المقدم على الأنبياء كلهم؛ ولهذا كان إمامهم ليلة الإسراء لما اجتمعوا ببيت المقدس، وكذلك هو الشفيع في يوم الحشر في إتيان الرب لفصل القضاء، وهو المقام المحمود الذي لا يليق إلا له، والذي يحيد عنه أولو العزم من الأنبياء والمرسلين، حتى تنتهي النوبة إليه، فيكون هو المخصوص به۔
تفسير ابن كثير (5/ 12)
وقال ابن أبي حاتم: حدثني أبي، حدثنا هشام بن عمار، حدثنا خالد بن يزيد بن أبي مالك، عن أبيه، عن أنس بن مالك، رضي الله عنه، قال: لما كان ليلة أسري برسول الله صلى الله عليه وسلم إلى بيت المقدس، أتاه جبريل بدابة فوق الحمار ودون البغل، حمله جبريل عليها، ينتهي خفها حيث ينتهي طرفها. فلما بلغ بيت المقدس وبلغ المكان الذي يقال له: “باب محمد صلى الله عليه وسلم” أتى إلى الحجر الذي ثمة، فغمزه جبريل بأصبعه فثقبه، ثم ربطها. ثم صعد فلما استويا في صرحة المسجد، قال جبريل: يا محمد، هل سألت ربك أن يريك الحور العين؟ فقال: نعم. فقال: فانطلق إلى أولئك النسوة، فسلم عليهن وهن جلوس عن يسار الصخرة، قال: فأتيتهن فسلمت عليهن، فرددن علي السلام، فقلت: من أنتن؟ فقلن: نحن خيرات حسان، نساء قوم أبرار، نقوا فلم يدرنوا، وأقاموا فلم يظعنوا، وخلدوا فلم يموتوا”. قال: “ثم انصرفت ، فلم ألبث إلا يسيرا حتى اجتمع ناس كثير، ثم أذن مؤذن وأقيمت الصلاة”. قال: “فقمنا صفوفا ننتظر من يؤمنا، فأخذ بيدي جبريل عليه السلام، فقدمني فصليت بهم. فلما انصرفت قال جبريل: يا محمد، أتدري من صلى خلفك؟ ” قال: “قلت: لا. قال: صلى خلفك كل نبي بعثه الله عز وجل”۔
صحيح البخاري (8/ 44)
حدثنا إسماعيل: قلت لابن أبي أوفى: رأيت إبراهيم ابن النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: «مات صغيرا، ولو قضي أن يكون بعد محمد صلى الله عليه وسلم نبي عاش ابنه، ولكن لا نبي بعده»۔
مسند أحمد (13/ 340)
عن فرات، سمعت أبا حازم، قال: قاعدت أبا هريرة خمس سنين، فسمعته يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: ” إن بني إسرائيل كانت تسوسهم الأنبياء، كلما هلك نبي خلف نبي، وإنه لا نبي بعدي۔۔
سنن الترمذي ت بشار (4/ 69)
عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تقوم الساعة حتى تلحق قبائل من أمتي بالمشركين، وحتى يعبدوا الأوثان، وإنه سيكون في أمتي ثلاثون كذابون كلهم يزعم أنه نبي وأنا خاتم النبيين لا نبي بعدي۔
الصحيح للمسلم(كتاب البر والصلة ولآداب،باب النهي عن لعن الدواب وغيرها)
عن أبي هريرة، قال: قيل: يا رسول الله ادع على المشركين قال: «إني لم أبعث لعانا، وإنما بعثت رحمة۔۔
شعب الإيمان (باب حب النبي صلي الله عليه وسلم ،فصل في بيان النبي صلي الله عليه وسلم)
عن عبد الله بن عبيد قال: لما كسرت رباعية رسول الله صلى الله عليه وسلم، وشج في جبهته فجعلت الدماء تسيل على وجهه قيل: يا رسول الله، ادع الله عليهم فقال صلى الله عليه وسلم: ” إن الله تعالى لم يبعثني طعانا ولا لعانا، ولكن بعثني داعية ورحمة، اللهم اهد قومي فإنهم لا يعلمون۔۔
موطأ مالك (اطاعة محمد صلي الله عليه وسلم)
وقال تعالى: {وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا} [الحشر: 7].وهكذا اشترك محمد صلى الله عليه وسلم مع سائر الأنبياء في وجوب الإطاعة لهم، ولكنه امتاز عليهم بأمرين، أحدهما: أن رسالته كانت عامة وشاملة، فقد أرسله الله للعالمين، فقال عز من قائل: {وما أرسلناك إلا رحمة للعالمين} [الأنبياء: 107]۔
مسند أحمد (حديث ابي امامة الباهلي)
عن أبي أمامة قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد جالسا وكانوا يظنون أنه ينزل عليه، فأقصروا عنه حتى جاء أبو ذر فأقحم فأتى فجلس إليه، فأقبل عليه النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ” يا أبا ذر هل صليت اليوم؟ ” قال: لا. قال: ” قم فصل “. فلما صلى أربع ركعات الضحى أقبل عليه فقال: ” يا أبا ذر تعوذ بالله من شر شياطين الجن والإنس “. قال يا نبي الله: وهل للإنس شياطين؟ قال: ” نعم شياطين الإنس والجن يوحي بعضهم إلى بعض زخرف القول غرورا “. ثم قال: ” يا أبا ذر ألا أعلمك كلمة من كنز الجنة؟ ” قال: بلى. جعلني الله فداءك قال: ” قل لا حول ولا قوة إلا بالله “. قال: فقلت: لا حول ولا قوة إلا بالله. قال: ثم سكت عني، فاستبطأت كلامه قال: قلت: يا نبي الله إنا كنا أهل جاهلية وعبادة أوثان فبعثك الله رحمة للعالمين أرأيت الصلاة ماذا هي؟ قال: ” خير موضوع من شاء استقل۔۔۔الخ۔
مسند أحمد
عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” إن الله بعثني رحمة للعالمين وهدى للعالمين۔۔۔الخ۔
المستدرك على الصحيحين للحاكم (2/ 656)
عن العرباض بن سارية، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إني عند الله في أول الكتاب لخاتم النبيين وأن آدم لمنجدل في طينته، وسأنبئكم بتأويل ذلك دعوة أبي إبراهيم وبشارة عيسى قومه، ورؤيا أمي التي رأت أنه خرج منها نور أضاءت له قصور الشام»۔
صحيح مسلم (1/ 371)
عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” فضلت على الأنبياء بست: أعطيت جوامع الكلم، ونصرت بالرعب، وأحلت لي الغنائم، وجعلت لي الأرض طهورا ومسجدا، وأرسلت إلى الخلق كافة، وختم بي النبيون۔۔
الصحيح للبخاري
حدثنا محمد بن سنان هو العوقي، قال: حدثنا هشيم، قال: ح وحدثني سعيد بن النضر، قال: أخبرنا هشيم، قال: أخبرنا سيار، قال: حدثنا يزيد هو ابن صهيب الفقير، قال: أخبرنا جابر بن عبد الله، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ” أعطيت خمسا لم يعطهن أحد قبلي: نصرت بالرعب مسيرة شهر، وجعلت لي الأرض مسجدا وطهورا، فأيما رجل من أمتي أدركته الصلاة فليصل، وأحلت لي المغانم ولم تحل لأحد قبلي، وأعطيت الشفاعة، وكان النبي يبعث إلى قومه خاصة وبعثت إلى الناس عامة ۔۔
مشكاة المصابيح
وعنأبي هريرة قال: قالوا: يا رسول الله متى وجبت لك النبوة؟ قال: «وآدم بين الروح والجسد» ۔
فتح الباري لابن حجر (1/ 436)
وظاهر الحديث يقتضي أن كل واحدة من الخمس المذكورات لم تكن لأحد قبله وهو كذلك ولا يعترض بأن نوحا عليه السلام كان مبعوثا إلى أهل الأرض بعد الطوفان لأنه لم يبق إلا من كان مؤمنا معه وقد كان مرسلا إليهم لأن هذا العموم لم يكن في أصل بعثته وإنما اتفق بالحادث الذي وقع وهو انحصار الخلق في الموجودين بعد هلاك سائر الناس وأما نبينا صلى الله عليه وسلم فعموم رسالته من أصل البعثة فثبت اختصاصه بذلك۔۔
الفتاوى الهندية (2/ 264)
ولو شتم رجلا اسمه محمد، أو أحمد، أو كنيته أبو القاسم، وقال له: يا ابن الزانية وهركه خداير باين اسم، أو باين كنيه ينده است فقد ذكر في بعض المواضع أنه إذا كان ذاكرا للنبي – صلى الله عليه وسلم – يكفر كذا في المحيط۔