ميری خالہ اپنےبڑے بیٹے کےلئے جو پہلےسے شادی شدہ ہے رشتہ لے کرآئی اور میری والدہ سے بہت ضد کی اور تین دن تک ہمارے گھر میں قیام کیا اور کہا میں تو آپ کی بیٹی کا رشتہ لےکر ہی جاوں گی ، والدہ نے اس اصرا کے باوجود منع کردیا ،میری خالہ جھگڑاکر چلی گی ،وہ جس بیٹے کےلئے رشتہ مانگ رہی ہے اس کی پہلی شادی کو تقریبا چھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس کے ہاں اولاد نہیں ،میں عمر میں اس سےکافی چھوٹی ہوں۔
اس رمضان میں خالہ نے قرآن پاک کو لا کر میری والدہ کی گود میں رکھا والدہ نے قرآن کی ڈرسے ہاں کردی،خالہ نے بغیر پوچھے انگوٹھی میرے ہاتھ میں پہنادی جس پر میں نے خالہ سے کہا زبردستی نکاح نہیں ہوتا، خالہ نے کہا ،ہوجاتاہے،رضامندی کی ضرورت نہیں۔ اور یہ بھی کہا کہ میرا بیٹا پہلے بیوی کو طلاق دے دیگا، اس کےجانے کے بعد میں نے والدہ کو انگوٹھی واپس کردی اور انکار کردیا،والدہ نے کہا کہ تمہاری خالہ قرآن پاک لے کر آئی تھی میں کیسے انکار کرسکتی تھی اورغلطی سے والدہ کے ساتھ اونچی آواز میں بات کرنی کی وجہ سے بڑے بھائی نے مجھے بے دردی سے مارا۔
نمبر1-خالہ کا رشتہ کےلئے قرآن پاک لے کر آنا اور میری امی کی گود میں رکھنا اور والدہ کا قرآن پاک کے خوف سے میری مرضی کے بغیر ہاں کرنا شرعا کیسا عمل ہے؟
نمبر2-میرا رشتہ سے انکار کرنے کی وجہ سے میں اللہ تعالی ،قرآپاک اور والدہ کی نافرمانی کا مرتکب تو نہیں ہوں گی؟
نمبر3-کیا میرے بھائی کو شرعا اجازت ہے کہ وہ اپنی یتیم عاقلہ بالغہ بہن کو بے دردی سے مارے؟
صورتِ مسئولہ میں آپ کی والدہ کے لئے جائز نہیں کہ وہ آپ کی رضامندی کے بغیر آپ کا نکاح کسی ایسے شخص سے کرائے جس سے آپ نکاح نہیں کرناچاہتی ۔ اور بھائی کے لئےبھی جائز نہیں کہ وہ آپ کواس پر مارے یا ڈانٹے اور خالہ کو چاہئے کہ وہ قرآن مجید یا خدا کا واسطہ دےکر رشتہ پر مجبورنہ کرے۔ ان کا خدا کا واسطہ دینے سے یا قرآن مجید کو گود میں رکھنے سے آپ پر رشتہ دینا لازم نہیں ہوتا۔بلکہ آپس میں باہم مشورےسے کسی ایسی جگہ رشتہ طے کریں جہاں آپ بھی راضی ہوں اور والدہ اور بھائی بھی مطمئن ہوں۔
صحيح مسلم (2/ 1036) دار إحياء التراث العربي
حدثنا أبو هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا تنكح الأيم حتى تستأمر، ولا تنكح البكر حتى تستأذن»، قالوا: يا رسول الله، وكيف إذنها؟ قال: «أن تسكت»۔۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 2060) دار الفكر
(وعن ابن عباس أن النبي – صلى الله عليه وسلم – قال: الأيم) أي: من لا زوج لها بكرا كانت أو ثيبا ذكره ابن الهمام ومع هذا لا بد من قيد البلوغ والعقل بدليل قوله (أحق بنفسها من وليها) قال النووي: ” قال الكوفيون وزفر: الأيم هنا كل امرأة لا زوج لها بكرا كانت أو ثيبا كما هو مقتضاه في اللغة، وكل امرأة بلغت فهي أحق بنفسها من وليها وعقدها على نفسها بالنكاح صحيح، وبه قال الشعبي والزهري قالوا: وليس الولي من أركان صحة النكاح بل من تمامه، وقوله أحق بنفسها يحتمل أن يراد به من وليها وعقد ما على نفسها بالنكاح صحيح وبه قال الشعبي والزهري قالوا: حتى لا تزوج إلا أن تأذن بالنطق بخلاف البكر ولكن لما صح قوله – صلى الله عليه وسلم – «لا نكاح إلا بولي» مع غيره من الأحاديث الدالة على اشتراط الولي تعين الاحتمال الثاني، فإذا تقرر هذا فمعنى (أحق) وهو يقتضي المشاركة أن لها في نفسها في النكاح حقا ولوليها حقا وحقها آكد من حقه ; فإنه لو أراد تزويجها كفؤا وامتنعت لم تجبر ; ولو أرادت أن تتزوج كفؤا وامتنع الولي أجبر۔۔
الفتاوى الهندية (1/ 287) دار الفكر
نفذ نكاح حرة مكلفة بلا ولي عند أبي حنيفة وأبي يوسف – رحمهما الله تعالى – في ظاهر الرواية، كذا في التبيين. …. لا يجوز نكاح أحد على بالغة صحيحة العقل من أب أو سلطان بغير إذنها بكرا كانت أو ثيبا فإن فعل ذلك فالنكاح موقوف على إجازتها فإن أجازته؛ جاز، وإن ردته بطل، كذا في السراج الوهاج۔۔
الدر المختار (3/ 58)سعيد
(ولا تجبر البالغة البكر على النكاح) لانقطاع الولاية بالبلوغ۔
البحر الرائق (3/ 117) دار الكتاب الإسلامي
(قوله نفذ نكاح حرة مكلفة بلا ولي) لأنها تصرفت في خالص حقها وهي من أهله لكونها عاقلة بالغة ولهذا كان لها التصرف في المال ولها اختيار الأزواج، وإنما يطالب الولي بالتزويج كي لا تنسب إلى الوقاحة ولذا كان المستحب في حقها تفويض الأمر إليه والأصل هنا أن كل من يجوز تصرفه في ماله بولاية نفسه يجوز نكاحه على نفسه وكل من لا يجوز تصرفه في ماله بولاية نفسه لا يجوز نكاحه على نفسه، ويدل عليه قوله تعالى {حتى تنكح} أضاف النكاح إليها ومن السنة حديث مسلم «الأيم أحق بنفسها من وليها» وهي من لا زوج لها بكرا كانت أو ثيبا، فأفاد أن فيه حقين حقه وهو مباشرته عقد النكاح برضاها، وقد جعلها أحق منه ولن تكون أحق إلا إذا زوجت نفسها بغير رضاه۔