بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

جس آدمی کے مختلف و مشترک کاروبار ہوں اس کو پیسے دے کر نفع حاصل کرنا

سوال

ایک آدمی کاروبار کے نام سے لوگوں سے پیسے اکٹھا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جو نفع آئے گا ان میں سے آدھا آپ کا اور آدھا میرا۔ اس آدمی کے بارے میں یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ ان سب پیسوں کو اکٹھا کر کے تین چار جگہوں میں نفع کے لیے لگاتا ہے جیسے آن لائن کرنسی کا روبار میں لگاتا ہے، پراپرٹی کا کام کرتا ہے، مویشیوں کی خرید و فروخت کا کام کرتا ہے، بھینسوں کے ایک دوفارم بنائے ہوئے ہیں جس سے دودھ بیچتا ہے۔
جو آدمی اس کو پیسے دیتا ہے اس کو صرف اتنا کہا جاتا ہے کہ جو نفع آئے گا آدھا آپ کا ، باقی یہ نہیں بتایا جاتا کہ آپ کا پیسہ کہاں لگا ہوا ہے ، بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب لوگوں کے پیسے اکٹھا کرنے کے بعد مذکورہ مختلف جگہوں پر لگاتا ہے اور جس جگہ سےجو بھی نفع آتا ہے ان سب کو اکٹھا کر کے ہر ایک ( جس جس نے پیسے جمع کروائے ہیں) کو ان کے پیسوں کے حساب سے نفع دیتا ہے۔
اب پوچھنا ہے کہ مذکورہ آدمی کو اپنی رقم انویسمنٹ کے لیے دی جاسکتی ہے اور اگر نہیں دی جاسکتی تو پھر اس آدمی کے ساتھ کس انداز سے معاملہ کیا جائے جس سے اپنی رقم کی انویسمنٹ کرنا درست ہو جائے اور جن لوگوں نے اس کو رقم دی ہے اور کافی عرصے سے نفع لیتے رہے ہیں ان کا کیا حکم ہے ؟

جواب

واضح رہیکہ شرعا کار و بار کے درست ہونے کے لئے کاروبار کا شفافیت پر مشتمل ہونا اور کاروبار کی نوعیت اور نفع کی تقسیم کے طریقہ کار کا واضح ہو نا ضروری ہے نیز مشترکہ کاروبار سے نفع حاصل کرنے سے پہلے کاروبار کے جواز پر ماہر مفتیان کرام سےفتوی بھی حاصل کرنا چاہیے۔
چونکہ سوال میں ذکر کردہ کاروبار کی نوعیت اور نفع کی تقسیم کا طریقہ کار واضح نہیں ، اسی طرح کرنسی کے کاروبار میں بیشتر معاملات ناجائز ہیں ان کی بھی وضاحت نہیں ہے۔ لہٰذا مذکورہ کاروبار کرنا اور اس سے نفع حاصل کرناتب تک جائز نہیں جب تک اس کاروبار کی نوعیت اور نفع کی تقسیم کے طریقے و معاہدات کو واضح کرتے ہوئے اس کے جواز پر ماہر مفتیان کے کرام سے فتوی نہ لے لیا جائے، اسلئے آپ کے لیے ایسے مہم کاروبار میں رقم انویسٹ کرنا درست نہیں۔
سابقہ معاملہ سے جن لوگوں نے نفع حاصل کیا ہے ، اس کا حکم یہ ہے کاروبار کرنے والے آدمی سے معلوم کر لیا جائے کہ ان کو حاصل ہونے والی آمدنی کا کتنے فیصد ڈیجیٹل کرنسی سے حاصل ہوتا ہے اپنے نفع میں سے اتنے فیصد رقم صدقہ کر دیں اور بقیہ کو استعمال کرنے کی گنجائش ہے۔ البتہ آئندہ جواز کا فتویٰ حاصل کرنے سے قبل معاملات نہ کریں۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 98) دار الكتب العلمية
(وأما) القسم الذي ليس للمضارب أن يعمله أصلا ورأسا، فشراء ما لا يملك بالقبض وما لا يجوز بيعه فيه إذا قبضه. (أما) الأول فنحو شراء الميتة والدم والخمر والخنزير وأم الولد والمكاتب والمدبر؛ لأن المضاربة تتضمن الإذن بالتصرف الذي يحصل به الربح، والربح لا يحصل إلا بالشراء والبيع، فما لا يملك بالشراء لا يحصل فيه الربح، وما يملك بالشراء لكن لا يقدر على بيعه، لا يحصل فيه الربح أيضا، فلا يدخل تحت الإذن، فإن اشترى شيئا من ذلك كان مشتريا لنفسه لا للمضاربة، فإن دفع فيه شيئا من مال المضاربة يضمن، وإن اشترى ثوبا أو عبدا، أو عرضا من العروض بشيء مما ذكرنا سوى الميتة والدم، فالشراء على المضاربة؛ لأن المبيع هنا مما يملك بالقبض ويجوز بيعه، فكان هذا شراء فاسدا والإذن بالشراء المستفاد بعقد المضاربة يتناول الصحيح والفاسد. (وأما) إذا كان الثمن ميتة أو دما، فما اشترى به لا يكون على المضاربة؛ لأن الميتة والدم لا تملك بالقبض أصلا۔
رد المحتار (٥٠١/٤) سعيد
المراد بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتحول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا۔
الاختيار لتعليل المختار (٦١/٣) دار الكتب العلمية
والملك الخبيث سبيله التصدق به ، ولو صرفه في حاجة نفسه جاز ، ثم إن كان غنيا تصدق بمثله ، وإن كان فقير ا لايتصدق۔
فتح القدير للكمال ابن الهمام (١١٧/٦) دار الفكر 
ولنا قوله – صلى الله عليه وآله وسلم – «الربح على ما شرطا، والوضيعة على قدر المالين » ولم يفصل ، ولأن الربح كما يستحق بالمال يستحق بالعمل كما في المضاربة۔
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (٥٠٦٦/٧) رشيدية
اتفاق مصادم لأصول الشريعة ، فيكون باطلاً، وإن تراضي عليه الطرفان ، لأن شرع الله عادل يحمي مصالح الناس على الدوام، ويقيهم من سوء تصرفاتهم وتورطهم فيما يضرهم ولا ينفعهم في نهاية الأمر، وإن تراءى لهم أن هناك مصلحة موقوتة ، أو تسوية سريعة الأوضاع تجارية متشابكة، لكنها تتجاوز الحق، وتوقع الناس في الباطل۔
فقه البنوك الاسلامية ( ص: ۱۵ ) دار البشائر الاسلامية
ولكن الشريعة الاسلامية وضعت شروطا وضوابط للربح المشروع، من اهمها : 1 . ان يكون الربح ناتجا عن كسب مشروع و عقود مشروعة تتوافر فيها الاركان والشروط، وليس فيها مخالفة لنص من نصوص الشرع.  ان لا يكون الربح بسبب الاستغلال، او الغش، او التدليس.3 . ان لا يؤدى الربح الى تحقيق غبن فاحش للطرف الآخر، على تفصيل ليس هذا البحث معقود ا لاجله۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس