کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم تین شراکت دار ہیں اور مل کر ایک کال سینٹر چلارہے ہیں ۔ کام شروع کرنے سے پہلے ہماری کچھ باتیں طے ہوئیں تھیں اور کچھ ان کہی رہ گئی تھیں جو کہ ہم تینوں اپنی اپنی سوچ سمجھ کے مطابق چلاتے رہے ہیں مگر اب وہ تذبذب کا باعث بن رہی ہیں لہذا اپنے ان معاملات میں ہمیں شرعی رہنمائی درکار ہے۔ کام شروع کرتے وقت جو طے شدہ معاہدہ تھا کہ ایک حصہ دار تمام تر سرمایہ کاری اور آمدن کی دیکھ بھال کرے گا دوسرا حصہ دار کمپنی کے تمام امور چلائے گا اور تیسرا حصہ دار اپنے تجربے اور مشاورت سے مدد فراہم کرے گا لہذا ایک سال پہلے شروع ہونے والا کاروبار اپنی وسعت کی طرف گامزن ہے۔
نمبر۱۔ زید سرمایہ کار آدمی ہے اور 48.5% کا حصہ دار ہے۔ معاہدے کے مطابق کاروبار بنانے سے چلانے تک کی تمام سرمایہ کاری ان کی ذمہ داری ہے اور بنک کے کچھ امورا ن کے سپرد ہیں۔ نمبر۲۔ عمر تجربہ کار آدمی ہے اور 48.5% کا حصہ دار ہے۔ معاہدے کے مطابق کاروبار چلانے کے تمام تر ذمہ داری ان کی ہے اور کمپنی کے تمام امور چلانا ان کے سپر د ہیں۔ نمبر۳۔ بکر اپنی گڈ ول اور مشاورتی عمل کی وجہ سے 3% کا حصہ دار ہے۔ معاہدے کے مطابق کاروباری امور کی بہترین ترسیل کے لیے جہاں کہیں ضرورت ہو ان کے تجربے سے استفادہ کیا جاتا ہے۔
معاہدے کے مطابق زید نے اکتوبر 2020 کو تمام سرمایہ عمر کو مہیا کردیا جس کی مدد سے عمر نے آفس بنانے کے تمام امور انجام دیے اور ایک مہینہ کی مدت کے بعد مؤرخہ 9نومبر 2020 کو دفتر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ دفتر کھلنے سے آج تک کی تاریخ تک سوائے بنک کے تمام کاروباری امور کی ذمہ داری عمر پر ہے اور اپنی ٹیم کے ہمراہ اس کو سرنجام دے رہے ہیں اور شروع دن سے اس کی تنخواہ بھی لے رہے ہیں جبکہ بینک کے امور اور سٹاف کی سیلری کے لیے چیک وغیرہ بنا نا زید کے سپرد ہے ۔ اس دوران بکر کی جہاں کہیں ضرورت محسوس ہوئی انھوں نے اپنے مشاورتی عمل سے رہنمائی کی اور اس عمل میں زید بھی برابر کے شریک ہوتے رہے اور یوں تینوں شراکت داروں کی کاوشوں سے کاروبار اپنی ترقی کی طرف گامزن ہے۔
سوال نمبر ۱۔ معاہدے کے مطابق زید کی وجہ قابلیت سرمایہ کاری ہے اور اسی وجہ سے وہ اس کاروبار میں 48.5%کے حصہ دار ہیں۔ کیا عمر اور بکر کو زید کا لگایا ہوا اصل سرمایا واپس کرنا ہے یا طے شدہ منافع 48.5 فی صد ہی ادا کرنا ہے؟
سوال نمبر ۲۔ سرمایہ کاری کے علاوہ زید کی کاروبار میں سوائے بینک کے معاملات دیکھنے کے مزید کوئی ذمہ داری نہیں ہے اس صورت میں کیا زید اپنے طے شدہ حصے کے علاوہ کوئی تنخواہ لے سکتے ہیں؟ نیز باقی شرکا کا تنخواہ لینا کیسا ہے اور تنخواہ لینا یا نہ لینا کون طے کرے گا ، کوئی اکیلا شریک اپنی مرضی سے اپنی تنخواہ مقرر کرسکتا ہے؟
سوال نمبر ۳۔ اگر زید کاروبار کی وسعت میں مزید دلچسپی نہیں رکھتے تو ایسی صورت میں عمر اور بکر کسی اور سرمایہ کار کی مدد سے یا اپنے سرمائے سے کاروبار کو وسیع کرتے ہیں تو ایسی صورت میں زید کے حصے کہ شرعی حیثیت کیا ہوگی؟
سوال نمبر ۴۔ طے شدہ معاہدے کے مطابق عمر اور بکر کوئی بھی سرمایہ کاری نہیں کریں گے تو ایسی صورت میں خدانخواستہ کسی نقصان کی صورت میں ان دونوں پر کوئی بھی ذمہ داری عائد ہوگی؟
سوال نمبر ۵۔ کسی بھی وقت اگر زید اپنی شراکت ختم کرنا چاہیں تو اس کا طریقہ کار اور ادائیگی کا ضابطہ کیا ہو گا؟
سوال نمبر۶۔ کاروبار چل جانے کے بعد مزید وسعت دینے کےلیے منافع کا استعمال کیسا ہے اور زید کب تک سرمایہ لگاتا رہے گا؟ سوال نمبر ۷۔ شرکت کے مزید اصول و ضوابط کیا ہیں اور ہم سے جہاں کہیں کوئی کوتاہی ہوئی اس کا سدباب کیا ہوگا؟
سوال میں ذکرکردہ تفصیلات کی روشنی میں تینوں شرکاء کال سنٹر کا بزنس کرتے رہے اور ہر ایک اپنے حصے کا کام سرانجام دیتا رہا لہذا شرعًا یہ شرکتِ اعمال کا معاملہ ہے ، نیز زبانی استفسار کے جواب کے مطابق چونکہ سرمایہ سارا زید نے لگایاتھا اور جوائنٹ اکاؤنٹ میں نفع آنے سے پہلے کے تمام اخراجات (دفتر بنانا، ملازمین کی تنخواہیں دینا وغیرہ)زید کے سرمایہ سے کیےگئے تو اب اگر اس شرکت کو ختم کریں گے تو جو چیزیں زید کے سرمایہ سے خریدی گئیں ہیں جیسے :دفتری سامان وغیرہ تو ان کی موجودہ مالیت کے اعتبار سے زید کو ان کی رقم دی جائےاور جو اخراجات تنخواہوں کی مد میں دیےگئے ان کاحساب لگاکر نفع میں سے ان تمام اخراجات کو پہلے پوراکیاجائےاور اس کے بعد اگر مزید نفع بچ جائےتو معاہد ےکے مطابق جو تناسب طے ہواہے وہ(نفع) سب کے درمیان اس(معاہدے )کے حساب سے تقسیم کیاجائے۔
:الفتاوى الهندية (2/ 328) دار الفكر
(وأما شركة الأعمال) فهي كالخياطين والصباغين، أو أحدهما خياط والآخر صباغ أو إسكاف يشتركان من غير مال على أن يتقبلا الأعمال فيكون الكسب بينهما فيجوز ذلك، كذا في المضمرات۔
:درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 353) دار الجيل
شركة الأعمال وشركة الوجوه حيث إن كل واحدة من هاتين الشركتين تصح بلا مال فلذلك لزم .اعتبار قيد الأموال (الطحطاوي) ۔
:البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 174)
قال – رحمه الله -: (ولا تدخل في القسمة الدراهم إلا برضاهم) يعني: جماعة في أيديهم عقار فطلبوا القسمة، وفي أحد الجانبين فضل عن الآخر فأراد أحدهم أن يدفع عوضه من الدراهم والآخر لم يرض بذلك لم تدخل الدراهم في القسمة لأنه لا شريك له فيها ويفوت به التعديل في القسمة لأ بعضهم يصل إلى عين المال المشترك في الحال ودراهم الآخر في الذمة فيخشى عليها التوى، وإذا كان أرض وبناء فعن الثاني أنه يقسم باعتبار القيمة لأنه لا يمكن اعتبار التعديل فيه إلا بالتقويم۔