بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

کیا اجتہادی خطا کے باوجود صحابہ کرام علیہم الرضوان معیار حق ہیں؟

سوال

نمبر۱۔کیا صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اجتہادى خطا ہونے کے باوجود معیار حق ہیں ؟
نمبر۲۔معیار حق صرف قرآن و حدیث ہے، کیونکہ صحابہ کرام سے اجتہادی خطا ہوئی ہے اور جس سے اجتہادی خطا ہو،کیا وہ معیار حق ہو سکتاہےیانہیں اور معیار حق ہونے کے کیا دلائل ہوسکتے ہیں؟راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

آنحضور ﷺ اوردیگرتمام انبیاء علیہم السلام نےاللہ تعالی کےدینِ متین کوبغیر کسی کمی وزیادتی کےصحیح صحیح پہنچادیا، اللہ تعالی کی طرف سےکوئی آیت غلط طریقے سےمنسوب نہیں کی اور یہی معیارِحق کامطلب ہے لہٰذا آنحضورﷺاورتمام انبیاء علیہم السلام معیارِ حق ہیں،اسی طرح حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی آنحضورﷺسے دین کوصحیح اورٹھیک طریقےسے نقل فرمادیاہے، لہذانقلِ دین میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی معیارِ حق ہیں۔
قرآن و حدیث کی بے شمار آیات و احادیث، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معیارِ حق ہونے پر دلالت کرتی ہیں، چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :”اگر یہ لوگ بھی اس طرح ایمان لے آئیں جیسے تم لائے ہو تو یہ راہ راست پر آجائیں گے” (سورۃ البقرہ: 137) اور اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے :”اور مہاجرین و انصار میں سے جو لوگ پہلے ایمان لائے اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سب سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہیں اور ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہی بڑی زبردست کامیابی ہے” (التوبہ:100) اسی طرح ان کی محبت کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیا۔چنانچہ ارشاد نبوی ہے”اللہ سےڈرو! اللہ سےڈرو! میرےصحابہ کےمعاملے میں، میرےبعدان کو(طعن وتشنیع کا) نشانہ نہ بناؤ کیونکہ جس شخص نےان سےمحبت کی تومیری محبت کےساتھ ان سےمحبت کی، اورجس نےان سےبغض رکھا تومیرےبغض کےساتھ ان سےبغض رکھااور جس نےان کوایذاء پہنچائی اس نےمجھےایذاء پہنچائی اورجس نےمجھےایذاء دی اس نےاللہ تعالی کوایذاء پہنچائی اورجو اللہ کوایذاء پہنچاناچاہتاہےتوقریب ہےکہ اللہ اس کوعذاب میں پکڑلےگا”
حتی کہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بعض موقعوں پر صریح امور سرزد ہوئے تو اس کو بھی اللہ تعالی نے معاف فرمادیا اور ان کے مقام کو برقرار رکھا جیسے حضرت حاطب ابن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا خط کے ذریعےفتح مکہ کی تیاری کی خبر دینا وغیرہ ۔لہذا صحابہ کا معیارِ حق ہونا یقینی ہے اور اس میں کسی بھی شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔ واضح رہے کہ سوال میں ذکر کردہ اجتہاد سے مراد اگر فروعی مسائل کااجتہاد ہے تو اس سے متعلق یہ بات سمجھ لیں کہ ایسے اجتہاد میں کوئی جانب منکَر نہیں ہوتی جس کی وجہ سے مجتہد پر ملامت کی جائے ،لہذابعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اجتہادی خطاء کےباوجودبھی ان کےمعیارِ حق ہونےکامقام متاثر نہیں ہوتا۔
احکام القرآن للتھانوی(9/362)اشرف التحقیق
(والسابقون الاولون من المھاجرین والانصاروالذین۔۔۔۔۔)فاوجب اللہ لجمیع اصحاب النبی ﷺالجنۃ والراضون ،وشرط علی التابعین شرطا شرطہ علیہ وما ذاک الشرط قال:اشترط علیھم ان یتبعوھم باحسان فی العمل وھو  ان یقتدوھم فی اعمالھم الحسنۃ ولا یقتدون بھم فی غیر ذالک او یقال المراد  ان یذھبوھم باحسان فی القول وھو ان لا یقولوا فیھم سوأ  وان لا یوجھوا الطعن فیما اقدموا علیہ۔
تفسیر مظہری(سورۃ الحدیدآیت نمبر10)رشیدیة
وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنى ط لا يحل الطعن فى أحد منهم ولا بد حمل مشاجراتهم على محامل حسنة واغراض صحيحه او خطأ فى الاجتهاد وايضا يدل صدر الاية على افضلية الصحابة على من بعدهم بسبقهم فى الإسلام والانفاق والجهاد وروى الشيخان فى الصحيحين عن ابى سعيد الخدري قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تسبوا أصحابي فلو ان أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه وَاللَّهُ بِما تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ع عالم بالبواطن كعلمه بالظواهر فيجازى كلا على حسبه۔
تفسیر مظہری(1/141)رشیدیة
(فان امنوا بمثل ما امنتم بہ)ای امنوا ایمانا مثل ایمانکم۔
احکام القرآن للجصاص(2/299)قدیمی
فثبت أن أولي الأمر في زمان النبي صلى الله عليه وسلم كانوا أمراء وقد كان المولى عليهم طاعتهم ما لم يأمروهم بمعصية. وكذلك حكمهم بعد النبي صلى الله عليه وسلم في لزوم اتباعهم وطاعتهم ما لم تكن معصية۔
مرقاۃ المفاتیح(11/276)امدادیة
(وعن عمران بن حصين قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: ( «خير أمتي قرني» ) ، أي الذين أدركوني وآمنوا بي وهم أصحابي، ( «ثم الذين يلونهم» ) ، أي يقربونهم في الرتبة أو يتبعونهم في الإيمان والإيقان وهم التابعون۔۔۔۔۔ (ثم يفشو الكذب) .۔۔۔۔۔۔ (عن عمر – رضي الله عنه – قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: (أكرموا أصحابي) أي: السابقين واللاحقين أحياء وأمواتا (فإنهم خياركم) ، والخطاب للأمة (ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم يظهر الكذب) أي: يفشو كما في رواية۔
مرقاۃ المفاتیح(11/280)امدادیة
(وعن عمر بن الخطاب – رضي الله عنه – قال: سمعت رسول الله يقول: (سألت ربي عن اختلاف أصحابي) أي: عن حكمة تخالفهم في فروع الشرائع (من بعدي، فأوحى) أي: الله كما في نسخة (إلي: يا محمد! إن أصحابك عندي بمنزلة النجوم في السماء) أي: في إظهار الهداية وإبطال الغواية كما قال تعالى: {وبالنجم هم يهتدون} [النحل: 16] (بعضها أقوى من بعض) ، أي: بحسب مراتب أنوارها المقدرة لها (ولكل نور) ، أي: وكذلك لكل من الأصحاب نور بقدر استعداده (فمن أخذ بشيء مما هم عليه) : بيان شيء (من اختلافهم) : بيان ما (فهو عندي على هدى) ، وفيه أن اختلاف الأئمة رحمة للأمة. قال الطيبي: المراد به الاختلاف في الفروع لا في الأصول، كما يدل عليه قوله: فهو عندي على هدى. قال السيد جمال الدين: الظاهر أن مراده – صلى الله عليه وسلم – الاختلاف الذي في الدين من غير اختلاف للغرض الدنيوي، فلا يشكل باختلاف بعض الصحابة في الخلافة والإمارة۔۔۔ (وقال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: ( «أصحابي كالنجوم») أي: فاقتدوا بهم جميعهم، أو بأكثرهم وإن لم يتيسر. (فبأيهم اقتديتم اهتديتم) . وكأنه أخذ من هذا بعضهم فقال: من تبع عالما لقي الله سالما

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس