بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

مدیون کی جانب سے تاخیر پر جرمانہ

سوال

میں نے فروری 2017 میں ایک کاروبار میں شرکت کی ،جو کہ سبزی اور پھل کے ایکسپورٹ کا کام ہے۔ معاہدے کے مطابق ہر شپمنٹ کے بعد 30 دن کے اندر منافع اداکرنا ہوگا۔
پاٹنر نے دو بار پھل ایکسپورٹ کیئے ایک کا منافع 17اپریل کو ادا کر دیا اور دو سرا15، 20 مئی کو دینا تھا جو کہ آج تک نہیں دیا گیا ، اس دوران میں پارٹنر نے میرے اور دوسروں کے منافع اور پرنسپل رقم سے ہمیں بتائے بغیر ایک آم کا باغ خریدلیا ۔بار بار یا د دہانی کے باوجو د اب تک نہ دوسری شپمنٹ منافع ہمیں ملا اور نہ ہی اصل رقم ، اس دوران مجھے دوسری جگہوں پر کا روبا ر کے مواقع ملے ،لیکن میں رقم نہ ہو نے کے باعث نہ کر سکا اور مجھے وہ بھی نقصان اٹھا نا پڑا ۔
سوال یہ ہے کہ میں اب اس شخص کو لیگل نوٹس دینا چاہتا ہو ں چنا چہ شرعی لحاظ سے میں کس کس نقصان کا معاوضہ ا س سے طلب کر سکتا ہو ں ۔ نیزکیاہم عدالتی اخرجات مذکورہ شخص سے وصول کر سکتے ہیں؟
نوٹ: خریدے گئے آموں کے باغ میں جو سرمایہ کاری کی ،یہ مذکورہ معاہدے کی بنیا د پر نہیں تھا ۔

جواب

نمبر۱۔ صورتِ مسئولہ میں شریک کی جانب سے اصل سرمایہ اورنفع کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے آپ اُس سے مالی جرمانہ وصول نہیں کرسکتے۔
نمبر ۲۔ اگر آپ کاشریک آپ کی رقم اداکرنے پر قادر ہو لیکن اس کے باوجود ادانہ کرے جس کی وجہ سے آپ کو مجبوراً عدالت کی جانب رجوع کرنا پڑے تو ایسی صورت میں عدالت کا واقعی خرچہ آپ اس سے لے سکتے ہیں۔(ملاحظہ فرمائیں فتاویٰ مفتی محمود جلد۱/ صفحہ ۷۹۳)
شعب الإيمان، أحمد بن الحسين،أبو بكر البيهقي(م: 458ھ)(7/346)الرشد
عن علي بن زيد، عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه “۔
مرقاة المفاتيح، علي بن (سلطان)محمد(م: 1014ھ) (5/1974)دارالفكر
(لا يحل مال امرئ)أي:مسلم أو ذمي(إلا بطيب نفس)أي:بأمر أو رضا منه۔
رد المحتار،العلامة ابن عابدين(م:1252ھ)(4/61)سعید 
 (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي۔
الدرالمختار،العلامة علاء الدين محمدبن علي(م: 1088ھ) (5 / 372)سعيد
وأجرة المحضر على المدعي هو الأصح بحر عن البزازية وفي الخانية على المتمرد وهو الصحيح وكذا السلطان والمفتي والفقيه۔
رد المحتار(5 / 372)سعيد
(قوله: وأجرة المحضر إلخ) بضم أوله وكسر ثالثه هو من يحضر الخصم، وعبارة البحر هكذا وفي البزازية: ويستعين بأعوان الوالي على الإحضار، وأجرة الأشخاص في بيت المال وقيل على المتردد في المصر ومن نصف درهم إلى درهم وفي خارجه لكل فرسخ ثلاثة دراهم أو أربعة، وأجرة الموكل على المدعي وهو الأصح وفي الذخيرة أنه المشخص وهو المأمور بملازمة المدعى عليه اه، والإشخاص بالكسر بمعنى الإحضار فقد فرق بين المحضر وبين الملازم، وهذا غير ما نقله الشارح فتأمل. وفي منية المفتي مؤنة المشخص قيل في بيت المال وفي الأصح على المتمرد اه، وهذا ما في الخانية. والحاصل: أن الصحيح أن أجرة المشخص بمعنى الملازم على المدعي وبمعنى الرسول المحضر على المدعى عليه لو تمرد بمعنى امتنع عن الحضور وإلا فعلى المدعي، هذا خلاصة ما في شرح الوهبانية۔
الفتاوى الهندية،نظام الدين البلخي(4/529)دارالفكر
وسئل بعضهم أجرة السجل على من؟ فقال على المدعي وقال برهان الدين على المدعى عليه وقال قاضي خان على من استأجر الكاتب، وإن لم يستأجره أحد فعلى الذي أخذ السجل وأما أجرة الرجالة فعلى من يعملون له وهم المدعون لكنهم يأخذون في المصر من نصف درهم إلى درهم وإذا خرجوا إلى الرستاق لا يأخذون لكل فرسخ أكثر من ثلاثة دراهم أو أربعة، وذكر بعضهم أجرة المُشخِّصِ في بيت المال وقيل على المتمرد كالسارق إذا قطعت يده فأجرة الجلاد والدهن الذي يحسم به العروق على السارق لأنه المسبب لو أمر القاضي رجلا بملازمة المدعى عليه لاستخراج المال ويسمى موكلا فمؤنته على المدعى عليه وقيل على المدعي وهو الأصح.فقط۔
عزیز الفتاوی مفتی عزیزالرحمن (1/625)دار العلوم کراچی
“جس صورت میں کہ مدیون متمردہے اورباوجوداستطاعت دین کےاداکرنےمیں تساہل وانکار کرتاہےاوردائن بمجبوری نالش کرکےقرض وصول کرتاہےتواس حالت میں مدیون سےخرچہ عدالت لینادرست ہےکہ سبب اس خرچہ کامدیون ہواہے۔” اوردیکہئے (امداد الاحکام(3/500)دارالاشاعت)۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس