بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر میکے ٹھہرنا

سوال

ان لوگوں کی کیا سزا ہے جو مرد کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی کو سالانہ کم از کم 4 ہفتے میکے گزارنے کی اجازت دے ۔اگرچہ وہ پورا سال موبائل پر اپنی والدہ کے ساتھ رابطہ میں رہتی ہے مرد کادعویٰ ہے کہ یہ لمبےدورے اس کے روز مرہ کے معمولات ،سالی بجٹ ، ازدواجی ضروریات (مخلوط ماحول میں کام کی وجہ سے ) بچوں کی تربیت ، بیوی کا اسلام اور وقت ، شوہر کا ذہنی سکون ،بچوں کی احتیاط اور ذہنی  نشوونما ، معاشرتی زندگی اور میاں بیوی کے تقویٰ کو خراب کرتے ہیں ۔ دونوں گھروں کے درمیان کا فاصلہ تقریباً 400 کلومیٹرہے۔برائے مہربانی میری راہ نمائی کریں کہ اسلام مرد ، عورت اور اس کے خاندان کے بارے میں کیا حکم دیتاہے کہ لڑکی کی والدہ کا کہناہے کہ مرد پر یہ لازم ہے کہ وہ میری بیٹی کو ہر سال کم از کم ایک مہینہ کے اس دورے کی اجازت دے یا ہر دوسرے مہینے دن گزروایا کرے،  لڑکی بھی تمام  پہلؤوں میں اپنی ماں کے مؤقف کی تائید کرتی ہے ۔مرد کہتاہے کہ اگر آپ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں تو طویل عرصہ  تک والدہ کے گھر جانا ضروری نہیں ہے اور کہتے ہیں کہ اللہ آپ کو کبھی بھی  معاف نہیں کرےگا کہ مجھے پریشان  اور مجبور چھوڑ کر  اپنی ضد پر  اتنے لمبے دورے کرے ہماری آپس میں جب بھی ناچاقی ہوئی اس موضوع پر ہوئی ہے ہماری اس معاملے میں راہ نمائی فرماکر گھر کا سکون قائم کرنے میں مدد کردیں تاکہ سب کی آخرت محفوظ ہوسکے؟

جواب

سوال میں ذکر کردہ آپ کی ساس ،اور بیوی کا موقف درست نہیں ہے ۔ بیوی کو اگر چہ شریعت نے یہ حق دیا ہے کہ  وہ اپنے والدین سے ملاقات کرےلیکن ان کے گھر جا کر رہنا یہ بیوی کا حق نہیں ہے۔ چنانچہ شوہر بیوی کو اس کے والدین کے گھر رات گزارنے سے منع کرسکتاہے۔ اس لیے بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کی رضامندی اور اجازت کے بغیر اور بلا ضرورت والدین کے گھر جاکرنہ ٹھہرے۔
الدر المختار (3/ 602)سعید
 (ولا يمنعها من الخروج إلى الوالدين) في كل جمعة إن لم يقدرا على إتيانها على ما اختاره في الاختيار۔۔۔(ولا يمنعهما من الدخول عليها في كل جمعة، وفي غيرهما من المحارم في كل سنة) لها الخروج ولهم الدخول زيلعي (ويمنعهم من الكينونة) وفي نسخة: من البيتوتة لكن عبارة منلا مسكين: من القرار (عندها) به يفتى
رد المحتار (3/ 602)سعید
(قوله على ما اختاره في الاختيار) الذي رأيته في الاختيار شرح المختار: هكذا قيل لا يمنعها من الخروج إلى الوالدين وقيل يمنع؛ ولا يمنعهما من الدخول إليها في كل جمعة وغيرهم من الأقارب في كل سنة هو المختار۔۔۔وعن أبي يوسف في النوادر تقييد خروجها بأن لا يقدرا على إتيانها، فإن قدرا لا تذهب وهو حسن، وقد اختار بعض المشايخ منعها من الخروج إليهما وأشار إلى نقله في شرح المختار. والحق الأخذ بقول أبي يوسف إذا كان الأبوان بالصفة التي ذكرت، وإلا ينبغي أن يأذن لها في زيارتهما في الحين بعد الحين على قدر متعارف، أما في كل جمعة فهو بعيد، فإن في كثرة الخروج فتح باب الفتنة خصوصا إذا كانت شابة والزوج من ذوي الهيئات، بخلاف خروج الأبوين فإنه أيسر
رد المحتار على الدر المختار (3/ 577)سعید
وللزوج أن يمنع امرأته عما يوجب خللا في حقه وما فيها
الفتاوی التاتارخانیة(4/304) فاروقیه
واما اذا اردت المراۃ ان تخرج الی زیارۃ ذی الرحم المحارم نحو الخالۃ والعمۃ او الی زیارۃ الابوین فھو علی ھذا یعنی لا یمنعہا عن زیارۃ الابوین فی کل جمعۃ وعن زیارۃ سائر المحارم فی کل سنۃ،،،و فی جامع الجوامع: وقال ابن مقاتل:لایمنع  عن زیارۃ الابوین والمحارم فی کل شہر مرۃ اومرتین ،وفیہا :الجدۃ تقربھا علی الزوج قال ابوبکر: لایمنعہا عن الزیارۃ ویمنع عن الکون معہاباللیل ۔م:وکان القاضی الامام علی السغدی یقول : لا تخرج الی زیارۃ الابوین ولکن الابوین یحضران منزلہا بحضرۃ الزوج فی کل شھر اوشہرین مرۃ ۔۔

فتوی نمبر

واللہ اعلم

)

(

متعلقہ فتاوی

17

/

71

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس