ایک مرد اور ایک عورت نے شادی کی ،آج تقریبا ً 12 سال ان کے رشتہ ازدواج کو ہو چکے ہیں ، عورت دعوٰی کرتی ہے کہ میرا شوہر عنین (نامرد ) ہے ، جبکہ شوہر اس بات کی تر دید کرتا ہے در انحا لیکہ دو نوں کی تا دم تحریر کو ئی او لاد بھی نہیں ہے ، عورت کے گھر والوں نے شوہر سے میڈیکل ٹیسٹ کر وا نے کاکہا ، مگرشوہر اس سے بھی انکاری ہے، نتیجتًامجبور ہوکرعورت نے عدالت میں کیس کردیا، عدالت نے شوہر کو طلبی کے نو ٹس جاری کئے مگروہ عدالت میں بھی پیش نہیں ہوا ، جس پر متعدد پیشیوں میں حا ضر نہ ہو نے پر عدالت نے یکطر فہ طور پر میاں بیوی میں تفریق کرادی ہے ۔
کیا شریعت اسلامیہ کی رو سے عدالت کی جانب سے یک طرفہ تفریق سے دو نوں کے درمیان تفریق واقع ہو چکی ہے اور عورت اب آگے نکا ح کر سکتی ہے ؟دعوی اورعدالت کی جانب سے جاری شدہ فیصلہ کے کا غذات منسلک ہیں ۔
ملحوظہ : ہندہ کی طرف سے دائر کردہ دعوی اور عدالتی کاغذات و فیصلہ /ڈگری میں شوہر کی نامرد ہونے کا کوئی ذکر نہیں۔
ہم نے سوال اور منسلکہ عدالتی کاغذات کا مطالعہ کیا ہے جس کے نتیجہ میں یہ بات سامنے آئی کہ مدعیہ نے اپنے دعویٰ میں شوہر کے نامرد ہو نے کا بالکل بھی ذکر نہیں کیا اورعدالت نے جن وجوہات کی بنا ء پر نکاح ختم کیا ہے ، ان میں سے کو ئی بھی ایسی شرعاً معتبر وجہ نہیں ہے جس کی بنیا د پر نکاح کو ختم کیا جاسکے ۔لہٰذا ان دونوں کا نکاح بدستو ر باقی ہے اوروہ دونوں شرعاً میاں بیوی ہیں ۔واضح رہے کہ خلع کے لئے شوہر کی رضامندی شرعا ضروری ہے ۔ ا س کی رضامندی کے بغیر یک طرفہ طور پر خلع کا فیصلہ شرعا معتبر نہیں ہے ۔
تاہم اگر شوہر واقعۃ ً نامرد ہےتوعدالت یا جماعۃ المسلمین کے ذریعہ “بوجہ نامردی تنسیخ نکاح” کے تمام شرعی تقاضوں کو پورا کر کے تفریق کر وائی جاسکتی ہے ۔ حیلہ ناجز ہ میں شرائط موجود ہیں :(ص:47)دارالاشاعت۔