بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

گھر والوں کو خرچہ دیئے بغیرتبلیغ کےلئے نکلنا توکل کی حقیقت

سوال

زید تبلیغی جماعت میں ایک سال یا ایک چلے کےلئے جانے کا متمنی ہے اور گھر کے حالات ظاہرًا اس کےحق میں بالکل نہیں ہیں۔ذیل میں جس کی تفصیل یہ ہے: زید کے تین بیٹے ہیں جوتینوں مدرسہ میں پڑھتے ہیں اورگھرمیں آمدنی کاصرف زیدہی ذریعہ اوروسیلہ ہےاوررہنےکا گھربھی کرایہ کاہےاورزیدجماعت میں جاتے وقت کوئی نقدی وغیرہ چھوڑ کر بھی نہیں جارہاجوبعدمیں استعمال میں لائی جاسکے اور سال کےلئے کافی ہوجائے اور گھر کاکوئی فرد بھی زید کے جماعت میں جانے پر راضی نہیں اورپیچھےگھرمیں کوئی فردبھی نہیں ہےبیوی بیٹیاں سب اکیلی ہیں مندرجہ بالاصورت کوسامنےرکھ کربتائیں کہ زیدکا جماعت میں جاناجائزہےیانہیں؟ نیزیہ بھی بتائیں کہ اگرزیدسال کےلئےخرچہ بھی دےجائےتوکیااس صورت میں جاناجائز ہوگایانہیں؟اوراگرزیدان حالات کےباوجودیہ کہتےہوئےچلاجائےکہ خداخانہ اوراہل خانہ کی حفاظت کرےگا۔کیاایساتوکل علی اللہ شریعت کی رُو سے درست ہے ؟

جواب

زیدپراپنےاہل وعیال کاخرچہ واجب ہے،کسی بھی سفرپرجانےکی صورت میں ان کےلئےسفر کی مدت کے خرچہ کاانتظام کرناضروری ہے؛ لہٰذامذکورہ صورت میں سفرمیں چلےجانااورخرچ کاانتظام نہ کرناگناہ ہے،اس کوتوکل نہیں کہا جاسکتا،اس لئےزیدکوچاہئےکہ وہ اس صورت میں سفرپرجانےکےبجائےاپنےمقام پرہی رہ کردعوت وتبلیغ کاکام کرتارہےاورجب اسباب مہیاہوں توپھرسفراختیارکرے۔

الجامع الصحيح لأبي الحسن مسلم بن الحجاج (م:261هـ) (4/103) البشریٰ
) رقم الحدیث:2948) ((  فاتقوا الله في النساء، فإنكم أخذتموهن بأمان الله، واستحللتم فروجهن بكلمة الله [ص: 890]، ولكم عليهن أن لا يوطئن فرشكم أحدا تكرهونه، فإن فعلن ذلك فاضربوهن ضربا غير مبرح، ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف ((۔
المبسوط لمحمد بن أحمد شمس الأئمة السرخسي (م:483هـ) (5/168) رشیدیة کوئتة
اعلم بأن نفقة الغير تجب بأسباب منها الزوجية، ومنها الملك، ومنها النسب، وهذا الباب لبيان نفقة الزوجات. والأصل فيه قوله تعالى {وعلى المولود له رزقهن وكسوتهن بالمعروف}…ولأنها محبوسة لحق الزوج ومفرغة نفسها له فتستوجب الكفاية عليه في ماله…وكذلك يفرض لها من الكسوة ما يصلح لها للشتاء والصيف۔
الفتاوی التاتارخانیة،فرید الدین عالم بن العلاء (م:786هـ) (5/358) فاروقیه کويتہ
(مسئله:8201) في الخانیة: تجب علی الرجل نفقة إمرته المسلمة والذمیة والفقیرة والغینمة دخل بها أو لم یدخل بها، والنفقة الواجبة: الماکول والملبوس والسکنیٰ، أما الماکول فالدقیق والمال والحطب والملح والرهن…الخ۔

واضح رہےکہ اللہ تعالیٰ پرتوکل اوربھروسہ کےیہ معنی نہیں کہ کسب ِ معاش اوردفع بلاءکےجواسباب اللہ تعالیٰ نےعطاءفرمائےہیں،اُن کومعطل کرکےاللہ تعالیٰ پربھروسہ کیاجائے،بلکہ  توکل کی حقیقت  یہ ہےکہ اپنےمقاصدکےلئےاللہ کی دی ہوئی قوت  اورتوانائی اورجواسباب میسرہیں ان سب کواستعمال کرکےنتیجہ خدا پرچھوڑدیاجائے،مگر اسباب ِ مادیہ میں غلواورانہماک نہیں ہوناچاہئے،پھراسباب کی بھی تین قسمیں:1۔یقینی اسباب،ان کوچھوڑدیناشرعاً حرام ہے،مثلابھوک  لگی ہو اورروٹی سامنےرکھی ہو اوریقین ہےکہ اس کوکھالینے سےبھوک رفع ہوجائےگی،اس صورت  میں روٹی نہ کھانا توکل نہیں ہے۔

نمبر ۲۔۔ظنی اسباب:مثلاتجارت،زراعت وغیرہ ایسےاسباب کوترک کرنےکی دو صورتیں ہیں(الف)یہ کہ نہ سبب کواختیارکرےنہ اسباب کےماحول میں رہےیہ شرعاًناجائزہے(ب)یہ کہ اسباب کےماحول میں رہ کراسباب کوچھوڑدے،عام حالات میں یہ بھی جائزنہیں،مگرچندشرائط کےساتھ جائزہے: 1- صاحبِ عیال نہ ہو،یعنی کسی کا نان ونفقہ شرعاًاس کے ذمہ  نہ ہو- 2- صاحبِ عزم اور پختہ کار ہو- 3- ہرحال میں راضی برضارہے- 4- کسی سےصراحتًا یااشارۃ سوال نہ کرے،ان شرائط کےساتھ کوئی شخص علاجاًاسبابِ معاش کوترک کرےتوشرعاًجائز ہوگا، لیکن ان میں سےکوئی شرط بھی مفقودہوگئی توناجائزہوجائےگا۔

نمبر ۳۔اسباب خفیہ:یعنی کسی مقصدکےحصول میں دوراز کاراورباریک تدبیرکواختیارکرنا،بِلاشبہ یہ توکل کےمنافی میں۔خلاصہ یہ ہےکہ اسلام میں اسباب کوبالکل چھوڑدیناغلط ہے،لیکن توکل کامطلب یہ ہےکہ اسباب کی حقیقت ہروقت مستحضررہےاور اختصارواعتدال کےساتھ  اسباب کواختیارکرکےمعاملہ اللہ پرچھوڑدیاجائے۔

(معارف القرآن ، مفتی محمد شفیع صاحب 8/595،سورۃ المزمل، معارف مفتی اعظم،ص288)
الجامع السنن لأبي عيسى محمد بن عيسى الترمذي(م:279هـ) (2/59) عشرة مبشرة
عن أبي ذر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الزهادة في الدنيا ليست بتحريم الحلال ولا إضاعة المال ولكن الزهادة في الدنيا أن لا تكون بما في يديك أوثق مما في يد الله وأن تكون في ثواب المصيبة إذا أنت أصبت بها أرغب فيها لو أنها أبقيت لك»: ” هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه۔
الرسالة القشيرية،التوكل،عبد الكريم بن هوازن القشيري(م:465هـ) (ص:166) بيروت
وقال أحمد بن مسروق: التوكل الاستسلام لجيران القضاء والأحكام۔
تفسيرالقرطبي،أبو عبد الله محمد بن أحمد القرطبي(م:671هـ) (5/283) إحياء التراث العربي 
وقال القرطبي في تفسیر قوله تعالیٰ:)أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ)۔
اتخاذ البلاد وبنائها ليمتنع بها في حفظ الأموال والنفوس، وهي سنة الله في عباده. وفي ذلك أدل دليل على رد قول من يقول: التوكل ترك الأسباب، فإن اتخاذ البلاد من أكبر الأسباب وأعظمها وقد أمرنا بها، واتخذها الأنبياء وحفروا حولها الخنادق عدة وزيادة في التمنع)
  التوكل على الله لابن أبي الدنيا(م: 281هـ) (ص: 71)مصطفى عبدالقادرعطا
46 – قال أبو بكر وبلغني، عن بعض الحكماء، قال: ” التوكل على ثلاث درجات: أولاها ترك الشكاية، والثانية الرضا، والثالثة المحبة، فترك الشكاية درجة الصبر، والرضا سكون القلب بما قسم الله له، وهي أرفع من الأولى، والمحبة أن يكون حبه لما يصنع الله به، فالأولى للزاهدين، والثانية للصادقين، والثالثة للمرسلين “۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس