ہم نے ایک حدیث پڑھی قولہ علیہ الصلاة والسلام: المسلون شركاء في ثلث في المآء والكلاء والنار”(رواه ابوداود وابن ماجة کذا فى المشكوة). اس پر مسئلہ یہ پیش آرہا ہے کہ گاؤں میں ہماری ذاتی زمین ہے اور شہر میں بھی اور اس میں ہم نے گھاس لگائی ہوئی ہے، اس کی حفاظت بھی ہم کرتے ہیں اور پانی وغیرہ بھی دیتے ہیں،لیکن فرق اتنا ہے کہ شہری زمین میں گھاس ہم نے خود لگائی ہے اور گاؤں کی زمین میں اگنے والی گھاس قدرتی ہے اس کی صرف ہم نگرانی کرتے ہیں اور اس سے کسی کو نفع اٹھانے نہیں دیتے اور نہ ہی حفاظتی تدابیر اختیار کی ہوئی ہے ۔اب آیا لوگوں کے لیے ہماری اجازت کے بغیر ہماری گھاس سے نفع اٹھانا مباح ہے اور وہ اس سے نفع اٹھانے میں ہمارے ساتھ شریک ہے یا نہیں؟ جبکہ یہ بات مسلم ہے کہ “کلاء المرعی”چراہ گاہ میں بغیر کسی اعتراض کے مسلمان اس میں شریک ہے۔برائے مہربانی اس سے نکلنے والی تمام جزئیات پر روشنی ڈالیں۔
اصل جواب سے پہلے تمہیداً یہ سمجھ لیں کہ گھاس کی تین قسمیں ہیں
نمبر۱۔ وہ گھاس جو غیر مملوکہ ارض مباحہ میں خود بخود نکل آئی ہو ، یہ کسی کی ملک نہیں ہوتی، جو کاٹ لے وہ اس کا مالک ہو جائے گا۔
نمبر ۲۔وہ گھاس جو کسی کی مملوکہ زمین میں خود بخود نکل آئی ہو، اس کاحکم یہ ہے کہ اس کے کاٹنے سے صاحب ارض کسی کو نہیں روک سکتا، البتہ اپنی زمین میں دوسرے کو داخل ہونے سے روک سکتا، مگر داخل ہونےسے منع کرنے کی صورت میں مالک سے کہا جائے گا کہ ہمیں اندر آ کر کاٹنے کی اجازت دو یا خود کاٹ کر ہمیں دے دو، مالک ارض کے لیے لازم ہےکہ ان دو صورتوں میں سے کوئی اختیارکرے ۔
احادیث میں جس کلاء میں شرکت کا ذکر ہے وہ قسم اول و دوم ہے۔
نمبر ۴۔وہ گھاس جو کسی نے اپنی زمین میں کوشش کر کے اگائی ہو،اس کا حکم یہ ہے کہ یہ صاحب ارض کی ملکیت ہے، لوگوں کو اس کی بیع کرنے اور لوگوں اور جانوروں کوداخل ہونے سے روکنا جائز ہے۔
مندرجہ بالا تفصیل کے بعد جواب یہ ہے کہ شہری زمین میں جوگھا س آپ نے خود لگائی ہے یہ آپ کی ملک ہے، آپ کی اجازت کے بغیر کسی کے لیے اس کااستعمال جائز نہیں، یہ تیسری صورت میں داخل ہے۔
اور گاؤں والی زمین جس کی گھاس قدرتی ہے اور آپ اس کی صرف نگرانی کرتے ہیں کہ جانور یا کوئی اورشخص نہ آئے اور نہ وہاں چار دیواری کی ہوئی ہے اور نہ اس کو گھاس اگنےکے لیے تیار کیا ہوا ہے وہ آپ کی ملک نہیں ہے، جس کی تفصیل نمبر 3میں گزر چکی ہے۔