کیا فرماتےہیں علماء کرام ان لوگوں کے بارے میں جو زانی مردوعورت دونوں کوقتل کرتےہیں، چاہے وہ شادی شدہ ہوں یاغیرشادی شدہ اور وہ اس معاملہ میں حکومت کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ کیاان لوگوں کےلئےیہ جائز ہے ؟اگرہے تو کس بنیاد پر ؟اوراگرناجائز ہے توپھرزنا سے لوگوں کوکیسےروکاجائےگا؟ جبکہ ہماری حکومت کی حالت آپ جانتےہیں۔
یہ بات توواضح ہے کہ اگرکسی پرشرعی گواہوں سےزناثابت ہوجائےتو اس کوحد لگےگی، اگرشادی شدہ ہو تورجم کیاجائےگااوراگر غیرشادی شدہ ہو تو اس کو سو(100) کوڑے مارےجائیں گے۔ لیکن حدود کوقائم کرناشرعاً ریاست کی ذمہ داری ہے، اس کےعلاوہ عوام میں سےکسی کےلئےجائز نہیں کہ وہ از خود حدود قائم کرےیاپھرکسی کوسزاکےطورپر قتل کرے۔ ریاست کےاحوال کودیکھتےہوئے مسلمانوں کوچاہئےکہ وہ ایک ایسی جماعت کاانتخاب کرے جوعدل وانصاف اورصاحب رائے لوگوں پرمشتمل ہوں اوران لوگوں کےلئےیہ توجائز ہے کہ زانی کےساتھ قطع تعلق کریں ، لیکن یہ بات جائز نہیں کہ ان کوتعزیر بالمال کریں یاان پر حدود قائم کریں۔علماء وخطباء بھی جمعہ وغیرہ میں لوگوں کےسامنےزناکی قباحت اور اس کی اسباب اور اس سے بچنے کےطریقے بیان کریں اور ہرمسلمان پر لازم ہے کہ وہ اس معاملہ میں اپنی وسعت کےمطابق جدوجہدکرے۔
القرآن المجيد: [الاحزاب: 59]
{ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ}
السنن لأبي داود سليمان بن الأشعث الأزدي السِّجِسْتاني(م:275هـ)(3/5)بيروت
2488- عن ثابت بن قيس بن شماس قال: جاءت امرأة إلى النبي صلى الله عليه وسلم يقال لها أم خلاد وهي منتقبة، تسأل عن ابنها، وهو مقتول، فقال لها بعض أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم: جئت تسألين عن ابنك وأنت منتقبة؟ فقالت: إن أرزأ ابني فلن أرزأ حيائي۔
رد المحتار،العلامة ابن عابدين الشامي(م:1252هـ)(6/549)دارالفكر
فيشترط الإمام لاستيفاء الحدود۔