بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

کوئی شخص سعودیہ میں تیس روزے رکھ کر پاکستان پہنچے تو پاکستان میں اس پر روزہ فرض ہے یا نہیں اور قضاءو کفارہ لازم آئے گا؟

سوال

اگر كوئی بندہ سعودیہ عرب سے پاکستان میں آئے وہاں اس نے تیس روزے رکھ لئے تھے جب وہ پاکستان پہنچا تعو پاکستان میں ابھی روزہ باقی تھا جو شرعاً اس پر رکھنا ضروری تھا، اگر وہ یہ روزہ نہ رکھےتو کیا اس پر قضاء و کفارہ لازم آئے گا یا نہیں ۔۔؟

جواب

یاد رہے کہ روزے کا سبب اور موجبِ فرضیت شھودِ شھر ہے ، جس علاقہ میں رمضان کا مہینہ موجود ہے وہاں روزے کی فرضت ختم نہیں ہوگی، لہذاء مذکورہ شخص تیس روزے پورے کرکے جب پاکستان لوٹے تو چونکہ پاکستان میں رمضان کا دن باقی ہے لہذاء اس پر لازم ہے کہ دیگر روزے داروں کی طرح روزہ رکھے۔ اور روزہ نہ رکھنے کی صورت میں اس پر روزے کی قضاء لازم آئے گی ، البتہ کفارہ لازم نہ ہوگا۔
الدر المختار (2/ 384) دار الفكر
[تنبيه] : لو صام رائي هلال رمضان وأكمل العدة لم يفطر إلا مع الإمام لقوله – عليه الصلاة والسلام – «صومكم يوم تصومون وفطركم يوم تفطرون» رواه الترمذي وغيره والناس لم يفطروا في مثل هذا اليوم فوجب أن لا يفطر نهر (قوله وجوبا وقيل ندبا) قال في البدائع المحققون قالوا: لا رواية في وجوب الصوم عليه، وإنما الرواية أنه يصوم وهو محمول على الندب احتياطا. اهـ
قلت: والظاهر أن المراد بالوجوب المصطلح لا الفرض؛ لأن كونه من رمضان ليس قطعيا ولذا ساغ القول بندب صومه وسقطت الكفارة بفطره ولو كان قطعيا للزم الناس صومه. على أن الحسن وابن سيرين وعطاء قالوا لا يصوم إلا مع الإمام كما نقله في البحر فافهم (قوله: قضى فقط) أي بلا كفارة
المبسوط للسرخسي (3/ 64) دار المعرفة
وقوله – صلى الله عليه وسلم – «صومكم يوم تصومون» ، وهذا ليس بيوم الصوم في حق الجماعة فكذلك في حق الواحد
(ولنا) قوله – صلى الله عليه وسلم – «صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته فإن غم عليكم فأكملوا شعبان ثلاثين يوما» ؛ ولأن وجوب الصوم برؤية الهلال أمر بينه وبين ربه فلا يؤثر فيه الحكم، وقد كان لزمه الصوم قبل أن ترد شهادته فكذلك بعده فإن أفطر بالجماع لم تلزمه الكفارة عندنا
البحر الرائق (2/ 286) دار الكتاب الإسلامي
وأشار بوجوب صومه إذا رأى هلال الفطر وحده إلى أن المنفرد برؤية هلال رمضان إذا صام وأكمل ثلاثين يوما لم يفطر إلا مع الإمام؛ لأن الوجوب علته الاحتياط، والاحتياط بعد ذلك في تأخير الإفطارولو أفطر لا كفارة عليه اعتبارا للحقيقة التي عنده، وأطلق في الرائي فشمل من لا تقبل شهادته، ومن تقبل كذا في الفتاوى الظهيرية۔
بدائع الصنائع (2/ 80) دار الكتب العلمية
وأما صوم رمضان: فوقته شهر رمضان لا يجوز في غيره، فيقع الكلام فيه في موضعين أحدهما: في بيان وقت صوم رمضان، والثاني في بيان ما يعرف به وقته، أما الأول: فوقت صوم رمضان شهر رمضان، لقوله تعالى {فمن شهد منكم الشهر فليصمه} [البقرة: 185] أي: فليصم في الشهر، وقول النبي – صلى الله عليه وسلم – «وصوموا شهركم» أي: في شهركم لأن الشهر لا يصام وإنما يصام فيه۔
فتاوی عثمانی (6/177) معارف القرآن كراچى

پاکستان پہنچ کر جب تک رمضان باقی ہے، اس وقت تک روزہ رکھنا اس پر فرض ہے، اور جب روزہ فرض ہے تو نہ رکھنے کی صورت میں قضاء بھی لازم آئے گی۔

احسن الفتاوی (4/429) مکتبہ اشاعت اسلام

یہ شخص اکتسواں روزہ بھی رکھے گا، اور دوسروں کے ساتھ عید کرے گا۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس