بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

کمپنی کے لیے خریداری کرتے ہوئے زیادہ کا بل بنواکر اضافی رقم خود رکھنا

سوال

میں سعودی عرب میں مقیم ہوں اور کمپنی میں ملازمت کرتاہوں ، ملازمت کچھ اس طرح ہے کہ بازار سے سامان خریدنا پڑتاہے ، جس دوکان سے سامان خریدتاہوں یا پھر جس دوکان سے میں کمپنی کا کام کرواتاہوں ، تووہ دوکاندار مجھے ڈسکاؤنٹ دیتاہے، مثال کے طور پر ایک سامان یا ایک کام جس کا ریٹ مارکیٹ میں بھی اور اس دوکان پر بھی 150 ریال ہے ، تو وہ دوکاندار مجھے 150 کی انوائس یا بل دیتاہے اور مجھے ہر بارپرمننٹ کسٹمر ہونے کی وجہ سے 50 ریال دیتاہے،جس کو یہاں ڈسکاؤنٹ کہا جاتاہے،اور بازار کی دوسری دوکانوں کی بنسبت وہ کام بھی اچھے سے کرکے دیتاہے ، میں یہ 150 ریال کی انوائس یا بل کمپنی میں جمع کرواتاہوں ، اور جو 50 ریال ڈسکاؤنٹ کی صورت میں مجھے دوکاندار نے دیے ہوتے ہیں وہ اپنے پاس رکھتاہوں اور اپنی ضرورت کی چیزوں پر خرچ کرتاہوں۔ کیا یہ 50 ریال ڈسکاؤنٹ کی صورت میں حلال ہے؟

جواب

صورتِ مسؤلہ میں چونکہ آپ کمپنی کی طرف سے وکیل ہونے کی حیثیت سے خریداری کرتے ہیں۔اور دوکاندار آپ کو “پچاس ریال” کا ڈسکاؤنٹ دے کر “ایک سو پچاس ریال ” کا بل بنا کر دیتا ہے۔اور کمپنی کو بتائے بغیر وہ پچاس ریال آپ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں یہ دھوکہ اور رشوت ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔لہذا اس کام سے اجتناب ضروری ہے۔اور یہ رقم آپ کے لئے حلال نہیں۔اور دوکاندار بھی گناہ گار ہوگا۔
شعب الإيمان (7/ 346) مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض
 عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه. “۔
سنن الترمذی  (2/ 597) دار الغرب الإسلامي – بيروت
عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم۔۔۔: من غش فليس منا۔
الفتاوی الھندیة (3/521) العلمیة
ومنہ  انہ  (الوکیل) امین فیما فی یدہ کالمودع۔

فتوی نمبر

واللہ اعلم

)

(

متعلقہ فتاوی

18

/

5

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس