بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

کمپنی کے اصولوں کے خلاف ورزی پر ملازمین کوسزائیں دینا/نا اہل آدمی کوثالث بنانے سے کمپنی مالکان ذمہ دارہوں گے /حکم( ثالث)کی بنیادی صفات

سوال

ہماری کمپنی میں ملازمین کی طرف سے کمپنی کے اصولوں کی خلاف ورزی اور آپس کے تنازعات سامنے آتے رہتے ہیں جن کے تصفیے،حل اور مناسب فیصلے کے لئے کمپنی مالکان ایڈمن منیجرکو فیصلہ کرنے کاذمہ داربناتے ہیں ایسی صورت حال میں
نمبر1:۔کمپنی مالکان کو کن صفات کو مد نظررکھتے ہوئے کسی کو فیصلہ کرنے کاذمہ دار بناناچاہیئے؟
نمبر2:۔اگرکمپنی مالکان کسی منیجرکوفیصلہ کاذمہ دار بنائیں جب کہ وہ قضاکے بنیادی مسائل سے ناواقف ہونے کی وجہ سے شرع کے خلاف فیصلہ کر دے توکیاکمپنی مالکان گناہ گار ہوں گے؟
نمبر3:۔کمپنی کی طرف سے ملازمین کے کمپنی کے اصولوں کی خلاف ورزیوں پر کسی قسم کی سزائیں دینے کاحق ہے مثلاً موبائل ضبط کرنا ،نوکری سے نکالنا،تنخواہ سے کٹوتی کرنا،اضافی مراعات وانعام کم کرنایاختم کرنا،جسمانی سزادیناوغیرہ۔
نمبر4:۔کمپنی مالکان کی طرف سے مختلف منیجر زکے لئے اپنے شعبے کےلئے افراد کو رکھناان سے متعلق امور کو دیکھنا اور تنازعات کو حل کرنا متعلقہ شعبے کے منیجر کی ذمہ دار ی ہے تو کیا ایسی صورت میں منیجر تنازع کا فیصلہ کرنے سے انکار کر سکتاہے ؟

جواب

نمبر1،2۔مذکورہ صورت میں ملازم، ادارے کے جن قواعد وضوابط کی پاسداری کا معاہدہ کر چکا ہے، ان قواعد میں سے کسی بھی جائز قاعدہ و ضابطے کی خلاف ورزی کی صورت میں ذمہ داران کو ضابطے کی کارروائی کا اختیارحاصل ہے ، لیکن کسی ملازم کو کسی متنازع مسئلے میں حکومت کی طرف سے مقرر قاضی یاجج کے علاوہ کسی کے فیصلے کا پابند نہیں کیاجاسکتا ، البتہ فریقین اگر اپنے کسی نزاعی مسئلے میں کسی تیسرے فرد کو اپنے فیصلے کا اختیار دے دیں تو اس صورت میں اس “حَکَم اور فیصل “کو شرعاً فیصلہ کرنے کا اختیار ہوگااور فریقین اس فیصلے پر عمل کرنے کے پابند ہو نگے ۔
اس تناظر میں کمپنی کا مستقل طور پر کسی کو اس طرح ثالث مقرر کر نا کہ فلاں مینجر کا فیصلہ تسلیم کرنا لازم ہے، درست نہیں، البتہ اس کےلئے یہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے کہ کمپنی انتظامی ضرورت کے تحت کسی بھی ایسے باصلاحیت شخص کو متعین کر لےجس میں درج ذیل صفات خصوصی طور پر پائی جاتی ہو، اس کے پاس ملازمین کے جھگڑے آئیں تو وہ شریعت کے اصولوں کے مطابق ان کے درمیان صلح اور تصفیہ کرا دیں۔پھر جب کو ئی تنازع ہو تو فریقین رضامندی سے اس کو اپنا حکم بنا کر فیصلہ کر والیں ۔
حکم میں بنیادی چند مطلوبہ صفات یہ ہیں کہ وہ دیندار ، صاحب علم ہو۔انصاف کے ساتھ ،غیر جانبدار ہو کر فیصلہ کرنے کی قدرت ہو ۔معاملہ فہم اور امانت دارہو نیزقانونی تقاضوں کوجاننے اور سمجھنے کا بھی ملکہ ہو۔
نمبر3:۔شرعاً مالکان کے لئےجائز نہیں کہ وہ ملازمین پرکسی بھی قسم کا مالی جرمانہ عائدکریں یا جسمانی سزا دیں ، البتہ پہلے سےطے شدہ ضابطے کے مطابق یا ضابطہ بنا کر سب کو مطلع کر کے،کوتاہی کے بقدرتنخواہ اور اضافی سہولیات ومراعات میں کمی کرنے کی گنجائش ہے۔)امدادالاحکام (3/529)مکتبہ دار العلوم کراچی۔
نمبر 4:۔جی شرعاً کر سکتا ہے ۔ مگر بہتر یہ کہ جب کوئی اپنے اندر صلاحیت و اہلیت اور درج بالا صفات محسوس کرےاور کوئی دوسرا ان صفات کا حامل نہ ہو تو انکار نہیں کرنا چاہئے۔
  الفتاوى الهندية،لجنة العلماء برئاسة نظام الدين البلخي(3/306)دارالفكر
الأدب هو التخلق بالأخلاق الجميلة والخصال الحميدة في معاشرة الناس ومعاملتهم وأدب القاضي التزامه لما ندب إليه الشرع من بسط العدل ودفع الظلم وترك الميل،  والمحافظة على حدود الشرع، والجري على سنن السنة
  الفتاوى الهندية،لجنة العلماء برئاسة نظام الدين البلخي،(3/327)دارالفكر
وينبغي للقاضي أن يتقي الله ويقضي بالحق ولا يقضي لهوى يضله ولا لرغبة تغيره ولا لرهبة تزجره بل يؤثر طاعة ربه ويعمل طمعا في جزيل ثوابه وهربا من أليم عذابه فيتبع الحكمة وفصل الخطاب كذا في محيط السرخسي. ولا ينبغي للقاضي أن يكون فظا غليظا جبارا عنيدا وينبغي أن يكون موثوقا به في عفافه وعقله وصلاحه وفهمه وعلمه بالسنة والآثار ووجوه الفقه، ويكون شديدا من غير عنف لينا من غير ضعف كذا في التبيين ويأمر أعوانه بالرفق كذا في البزازية… فيكون جلوسه عند اعتدال أمره ويجعل سمعه وبصره وفهمه وقلبه إلى الخصوم غير معجل لهم ،ولا يخوف إياهم فإن الخوف يقطع حجة الرجل
دررالحكام في شرح مجلة الأحكام،علي حيدر (م:1353هـ)(4/578)دارالجيل
(التحكيم هو عبارة عن اتخاذ الخصمين آخر حاكما برضاهما؛ لفصل خصومتهما ودعواهما)وشرعا: هو عبارة عن اتخاذ الخصمين أي المدعي والمدعى عليه واحدا أهلا للحكم حاكما برضاهما لفصل خصومتهما ودعواهما…. وركن التحكيم إيجاب من طرف وقبول من الطرف الآخر، ويكون الإيجاب بالألفاظ التي تدل على التحكيم كقول: قد حكمناك أو نصبناك حاكما (التنوير)
الدرالمختار،العلامةعلاءالدين الحصكفي(م:1088هـ)(5/367)سعید
(وكره) تحريما (التقلد) أي أخذ القضاء (لمن خاف الحيف) أي الظلم (أو العجز) يكفي أحدهما في الكراهة ابن كمال (وإن تعين له أو أمنه لا) يكره فتح ثم إن انحصر فرض عينا وإلا كفاية بحر(والتقلد رخصة) أي مباح (والترك عزيمة عند العامة) بزازية فالأولى عدمه (ويحرم على غير الأهل الدخول فيه قطعا) من غير تردد في الحرمة ففيه الأحكام الخمسة

فتوی نمبر

واللہ اعلم

)

(

متعلقہ فتاوی

5

/

83

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس