بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

کلاق سے وقوع طلاق

سوال

گذارش ہے کہ تقریباً ایک ہفتہ پہلےمیرا اپنی بیوی کے ساتھ جھگڑاہواتھا ،اور میں نے غصے میں آکر ڈرانے کےلئے لفظ کلاق تین دفعہ استعمال کیا اور میرے گھر والے بھی موجود تھے۔ اپنے گھر والوں نے یہ بات محلے میں پھیلادی۔ اب گھروالے اور محلے دار تنگ کرتے ہیں کہ تم دونوں الگ ہوجاؤ ،جبکہ میں نے طلاق کالفظ نہیں کہا۔
بیوی کا بیان یہ ہے کہ مجھے صاف جدائی سے نہیں پتہ چلاکہ کیا لفظ استعمال کیا ،اور کہا بھی میرےسامنے دو مرتبہ کیونکہ تیسری مرتبہ کہنے سے پہلے میں وہاں سے چلی گئی تھی ۔دوسری بات یہ ہے کہ اسے مذکورہ جملہ کہنے سے پہلےکسی کوگواہ نہیں بنایاتھاکہ میں”طلاق”کی بجائے ”کلاق”بولوں گا۔
بہن کابیان
میں اس واقعہ کی گواہ ہوں ۔میرے بھائی نےلفظ طلاق کہا تھا مجھے یہی سمجھ میں آئی تھی۔
بیوی کابیان
میں حلفاًخداکو حاضر ناظر جان کر بیان کر تی ہوں کہ میں نے لفظ طلاق بھی سنا اور کلاق بھی سنا،مذکورہ جملہ کی وضاحت یہ ہے کہ پہلی دو مرتبہ تو طلاق ہی سنا لیکن تیسری مرتبہ شبہ ہو گیا،ایسالگ رہاتھا جیسے ”کلاق”کہا۔

جواب

مفتی غیب نہیں جانتا ، وہ سوال میں ذکرکردہ تفصیل کے مطابق جواب دینے کامکلف ہے، سوال کےدرست اور غلط ہونے کی ذمہ داری سائل پر عائد ہوتی ہے ۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ مفتی کے فتویٰ سے نہ کوئی حلال حرام بن جاتا ہے اور نہ ہی حرام حلال۔
اس تمہید کے بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ بیوی نے جب دو مرتبہ لفظِ طلاق سنا ہے تو بیوی کے حق میں دو طلاقیں ہوگئیں ، تیسری مرتبہ کے بارے میں جب بیوی کو ایسا محسوس ہوا کہ ’’کلاق ‘‘ کہاہے اور شوہر کا کہنابھی یہی ہے کہ میں نےجان بوجھ کرکلاق کہا ہے ، طلاق نہیں کہا اورطلاق کی نیت بھی نہیں تھی دیانۃً تیسری طلاق واقع نہیں ہوئی ، لہٰذا اگر ابھی تک عدت نہیں گزر ی ہے تورجوع کرنے کا حق حاصل ہے اور اگرعدت گزر گئی ہےتو شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے عوض دوبارہ نکاح کرکے اکٹھے رہ سکتے ہیں ۔
واضح رہے کہ ایک خاتون کی گواہی شرعاً معتبر نہیں ہے لہٰذا بہن کی گواہی سے مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
بدائع الصنائع،العلامة علاءالدين الكاساني(م:587هـ)(3/98)دارالكتب العلمية
وأما بيان ركن الطلاق فركن الطلاق هو اللفظ الذي جعل دلالة على معنى الطلاق لغة وهو التخلية والإرسال ورفع القيد في الصريح وقطع الوصلة ونحوه في الكناية أو شرعا، وهو إزالة حل المحلية في النوعين أو ما يقوم مقام اللفظ
الدرالمختار،العلامةعلاءالدين الحصكفي(م:1088هـ)(3/247تا239)سعید
باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)…  ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو ” ط   ل ق ” أو ” طلاق باش ” بلا فرق بين عالم وجاهل، وإن قال تعمدته تخويفا لم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله وبه يفتى
ردالمحتار،العلامة ابن عابدين الشامي(م:1252هـ)(3/249)سعید
(قوله ويدخل نحو طلاغ وتلاغ إلخ) أي بالغين المعجمة. قال في البحر: ومنه الألفاظ المصحفة وهي خمسة فزاد على ما هنا ثلاثا. وزاد في النهر إبدال القاف لاما. قال ط: وينبغي أن يقال إن فاء الكلمة إما طاء أو تاء واللام إما قاف أو عين أو غين أو كاف أو لام واثنان في خمسة بعشرة تسعة منها مصحفة، وهي ما عدا الطاء مع القاف
    قال الله تعالى
وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس