بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

کسی کے اکاؤنٹ میں غلطی سے رقم آجائے

سوال

بعض دفعہ ہمارے اکاؤنٹ میں پیسےآجاتے ہیں جس کا ہمیں پتہ  نہیں چلتا کہ یہ رقم کس نے جمع کرائی،اب اس کی صورت یہ ہوتی ہےکہ کسی نےاکاؤنٹ نمبر غلط لکھ دیاجس کی وجہ سےرقم اس کےاپنےاکاؤنٹ میں جانےکےبجائےمیرےاکاؤنٹ میں آگئی،اس طرح کامعاملہ پہلےبھی میرےساتھ پیش آیاجس کےحل کےلئے ہم نےبینک والوں سےرابطہ کیا،کہ اس طرح کی صورتِ حال جب پیش آئےتو ہم سےرابطہ کریں، اورایک مرتبہ جب یہ صورتِ حال پیش آئی توبینک والوں نےہم سےرابطہ کیااورہم نےوہ رقم واپس کردی۔ لیکن جب اس دفعہ یہ صورتِ حال پیش آئی تو بینک کی طرف سےبھی کوئی اطلاع نہیں آئی اس معاملے کا کافی عرصہ ہوگیا۔اب میرےلئےکیاحکم ہےکہ میں ان پیسوں کاکیاکروں؟یاکسی خیرکےمصرف میں استعمال کرلی جائے؟

جواب

جب آپ کو اس بات کا یقین ہوجائے کہ آپ کےاکاؤنٹ میں آنے والی رقم کسی غلطی کی وجہ سے آئی ہے،تو یہ رقم  آپ کے پاس امانت ہے، حتی الامکان اس کے مالک کو تلاش کرکے اُس تک رقم پہنچاناآپ پر لازم ہے،نیزمالک کوتلاش کرنااُس وقت تک ضروری ہےجب تک یقین ہوکہ وہ اپنی رقم تلاش کررہاہوگا۔اورجب اس کی طرف سےتلاش ختم  کرنےکایقین ہوجائےتومالک کی طرف سےوہ رقم کسی فقیرکوصدقہ کرناضروری ہے، البتہ صدقہ کےبعدمالک مل جائےتواس کواختیارہوگاچاہےصدقہ کوبرقراررکھےچاہےآپ سےرقم کامطالبہ کرے،اس صورت میں آپ پررقم واپس کرناضروری ہے۔
السنن لأبي داود سليمان بن الأشعث الأزدي السِّجِسْتاني(م:275هـ)(2/136) بيروت
1709 – عن عياض بن حمار، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من وجد لقطة فليشهد ذا عدل أو ذوي عدل، ولا يكتم ولا يغيب فإن وجد صاحبها فليردها عليه، وإلا فهو مال الله عز وجل يؤتيه من يشاء»۔
السنن لابن ماجه،أبو عبد الله محمد بن يزيد  (م:273هـ) (3/549) دار الرسالة العالمية
عن مطرف بن عبد الله بن الشخير، عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه  وسلم: «ضالة المسلم حرق النار»۔
المبسوط لمحمد بن أحمد السرخسي(م:483هـ)(11/4) رشیدیة کوئتة
فأما (النوع الثاني) وهو ما يعلم أن صاحبه يطلبه فمن يرفعه فعليه أن يحفظه ويعرفه ليوصله إلى صاحبه…وإنما يعرفها مدة يتوهم أن صاحبها يطلبها وذلك يختلف بقلة المال وكثرته…ولكنا نعلم أن التعريف بناء على طلب صاحب اللقطة، ولا طريق له إلى معرفة مدة طلبه حقيقة فيبنى على غالب رأيه، ويعرف القليل إلى أن يغلب على رأيه أن صاحبه لا يطلبه بعد ذلك، فإذا لم يجئ صاحبها بعد التعريف تصدق بها؛ لأنه التزم حفظها على مالكها، وذلك باتصال عينها إليه إن وجده وإلا فباتصال ثوابها إليه، وطريق ذلك التصدق بها.فإن جاء صاحبها فهو بالخيار إن شاء ضمنه لأنه تصدق بماله بغير إذنه، وذلك سبب موجب للضمان عليه، وإن شاء أنفذ الصدقة فيكون ثوابها له وإجازته في الانتهاء بمنزلة إذنه في الابتداء۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس