بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

کسٹمر کا کمیشن ایجنٹ کے ساتھ فراڈ کرنا

سوال

عبد القیوم صاحب بطور کمیشن ایجنڈ سولر اور انویٹر کا کاروبار کرتےہیں ،کمپنی سے مال لے کر آگے کسٹمر کو دیتے ہیں۔ فیصل آباد سے ایک بندے نے بذریعہ آئن لائن عبد القیوم صاحب کو مال کا آرڈر دیا ،عبد القیوم صاحب نے کسٹمر سے کہا کہ میں اپنا اکاؤنٹ نمبر بھیجتا ہوں اس پر رقم بھیج دو،اس نے کہا کہ پنجاب بینک کا یہاں برانچ نہیں الفلاح یا ایچ بی ایل کا کاؤنٹ نمبر بھیج دو ،میں نے کمپنی( جو مکس پاور کی ہے )کا اکاؤنٹ نمبر دیا اور کسٹمر نے مجھے پیمنٹ کی رسید بھیجی جوکہ 6،50،000 کی تھی جس کی میں نے کمپنی سے جاکر تصدیق کی، رقم آگئی ہے؟ کیونکہ یہ بندہ نامعلوم ہے فیصل آباد سے ہے اس کو میں نے سامان دینا ہے، کمپنی کے بندے نے کہا کہ آپ دیدے،رقم آگئی ہے اس پر اس نے مجھے Done کا میسیج بھی بھیجا، کمپنی کے ویریفائی کرانے پر میں نے اپنا سامان لے کر کسٹمر کو بیلٹی کرادی۔
پھر اس کے بعد اسی کسٹمر نے اسی طریقہ سے دو دفع مال منگوایا کمپنی سے ویریفائی کرنے کے بعد سامان اس کسٹمر کے ڈرائیور کے ہاتھ بھیج دیا گیا۔
پھر جب اسی کسٹمر نے دوبارہ آٹھ لاکھ کےسامان کا آرڈر دیا تو وہ سامان عبد القیوم صاحب کے ایک ساتھی بھائی انس صاحب(جوکہ سابقہ کمپنی کے ساتھ کاروبار کرتاہے) کے پاس موجود تھا، جب عبد القیوم صاحب نے بھائی انس صاحب سے بات کی ، تو بھائی انس نے کہا کہ ٹھیک ہے کمپنی کے نام سلپ کسٹمر سے بنوائے،میں کمپنی سے تصدیق کرادوں گا،عبد القیوم صاحب نے بھائی انس کے کہنے پر کسٹمر سے کمپنی کے نام آٹھ لاکھ کا سلپ منگوایا اور وہی سلپ بھائی انس کو سینڈ کردی جس کا بھائی انس نے کمپنی سے تصدیق کراکر مجھے بھی آگاہ کیا۔ اس سےاگلے دن بروز پیر 24جون کو اسی کسٹمر نے آرڈر کے بعد پیمنٹ کی دو رسیدیں بھیجیں،ایک 23،50،000 اور دوسری 130،0000 کی۔ ساڑھے تیئس لاکھ کی سامان بھائی انس کے پاس تھا اور تیرہ لاکھ کی سامان کامران کے پاس اور دونوں کو آگاہ کیا کہ یہ لاہور سے باہر فیصل آباد کی پارٹی ہے ،میں اس کو نہیں جانتابلکہ فیس بک سے اس بندے نے رابطہ کیا ہے اور میں نے رقم ویریفائی کرائے بغیر سامان نہیں دینی۔ انس بھائی کو وائیس میسیج کیا کہ اس کی ویریفائی کرائی ،میں قریب ہوں آرہاہوں میں نے سامان لے کر دینا ہے کسٹمر کا ڈرائیور پہنچ رہاہے ، اس نے ok کا میسیج کیا اس کے بعد کامران کو کال کی تو اس نے کہا کہ مجھے ویریفائی کرانے میں ایک دو گھنٹے لگیں گے،میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ جب میں بھائی انس کے پاس پہنچا ، اس نے کہا کہ رقم زیادہ پہنچ گئی ہے میں نے کہا کہ بقایا کا سامان دیدیں گے ، اس کے بعد بھائی انس نےمیرے سامنے مال نکلوایا اور کسٹمر کے ڈرائیور کے حوالہ کیا ۔ سامان حوالہ کرنے کے بعد بھائی انس نے جب کمپنی کو پیمنٹ کی ویریفائی کرنے کےلئے فون کیا تو عبد القیوم صاحب نے فورا کہا کہ بھائی تم نے ابھی تک ویریفائی نہیں کرائی ،اگر آپ مجھے بتاتے تو ہم ویریفائی ہونے کا انتطار کرتے اس پھر بھائی انس نے کہا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔ کمپنی کو فون کرنے کے بعد ان کا جواب آیاکہ یہ رقم بینک میں نہیں پہنچی اور سابقہ تین رقمیں بھی کلیر نہیں ہوئیں۔عبد القیوم صاحب فورا کمپنی بھاگے اور مالکان اور اکاؤنٹنٹ سے رابطہ کیا کہ آپ تو ویریفائی کر اچکے ہیں جس پر اکاؤنٹنٹ نے اعتراف کیا کہ مجھ سے کوتاہی ہوئی ہے ، میں نے سلپ دیکر ok کردیا ،اسٹیٹمنٹ نہیں نکلوائی، لیکن آپ فکر نہ کریں ، مالکان نے فورا پیروی شروع کردی ہے ، چوتھی مرتبہ کا ڈیل جوکہ کسٹمر ، عبد القیوم اور بھائی انس کے درمیان تھی جس میں بھائی انس نے عبد القیوم صاحب کو okکی آواز دی تھی ، لیکن کمپنی سے ویریفائی نہیں کی تھی ،بلکہ سامان بھیجنے کے بعد ویریفائی کی ، اگر یہ پہلے کر لیتے تو فراڈ کنندہ کے ڈرائیور کو پکڑنے میں کامیاب ہوتے اور نقصان سے بچ جاتے۔ اب یہ ہے کہ عبد القیوم صاحب کی تیس لاکھ کی رقم جوکہ بھائی انس کے والد کے پاس سے کا روبارکے مد میں موجود ہے ،اس رقم کا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں اور یہ رقم عبد القیوم صاحب کی ذاتی بھی نہیں بلکہ کسی اور شخص نے ٍٍٍان کو انویسٹ کرنے کےلئے دیاتھا،انس اور ان کے والد کا کہنا ہے کہ اس کا نقصان کا ذمہ دار عبد القیوم صاحب ہے اور اس نقصان کی تلافی اسی تیس لاکھ سے کریں گے۔کیونکہ ہم کسٹمر کو نہیں جاتے بلکہ عبد القیوم صاحب کو جانتے ہیں اور ہم نےسامان عبد القیوم صاحب کو دئیے ہیں اور اس نے ہمیں فیک رسیدیں دی ہے۔اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس نقصان کاذمہ دار عبد القیوم صاحب ہے یانہیں؟

جواب

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق جب عبدالقیوم صاحب نے بھائی انس کو یہ بات کہہ دی تھی کہ گاہک کو میں نہیں جانتا اس لئے اکاؤنٹ میں بھیجی گئی رقم کی تصدیق کیے بغیر مال نہیں بھیجنا اور بھائی انس نے ok کہہ کر یہ ذمہ داری قبول کی ۔ نیز عبدالقیوم صاحب کے آنے پر اس کو تصدیق نہ کرنے کی اطلاع بھی نہیں دی جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عبدالقیوم صاحب کے نقصان کا سبب بھائی انس کی کوتاہی ہےاور پہلے معاملہ میں کمپنی کے نمائندے کی کوتاہی ہے۔ شرعاً ایسی صورت میں نقصان کی ذمہ داری سبب بننے والے شخص ہی پر ہوتی ہے۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں نقصان کا ذمہ دار بھائی انس اور پہلے معاملہ میں کمپنی ہوگی۔ عبدالقیوم صاحب کو ذمہ دار ٹھہرانا یا اس کی جمع شدہ رقم ضبط کرنا جائز نہیں۔
مجلة الأحكام العدلية (ص: 179) نورمحمد، كارخانه تجارتِ كتب
(مادة 922) لو أتلف أحد مال الآخر وأنقص قيمته تسببا يعني: لو كان سببا مفضيا لإتلاف مال أو نقصان قيمته يكون ضامنا. مثلا: إذا تمسك أحد بثياب آخر وحال مجاذبتهما سقط مما عليه شيء أو تعيب يكون المتمسك ضامنا وكذا لو سد أحد ماء أرض لآخر أو روضته فيبست مزروعاته ومغروساته وتلفت أو أفاض الماء زيادة وغرقت المزروعات وتلفت يكون ضامنا. وكذا لو فتح أحد باب إصطبل لآخر وفرت حيواناته أو ضاعت أو فتح باب قفص وفر الطير الذي كان فيه يكون ضامنا….. (مادة 924) يشترط التعدي في كون التسبب موجبا للضمان على ما ذكر آنفا يعني: ضمان المتسبب في الضرر مشروط بعمله فعلا مفضيا إلى ذلك الضرر بغير حق , مثلا: لو حفر أحد في الطريق العام بئرا بلا إذن ولي الأمر ووقعت فيها دابة لآخر وتلفت يضمن وأما لو وقعت الدابة في بئر كان قد حفرها في ملكه وتلفت لا يضمن۔
دررالحكام في شرح مجلة الأحكام (2/ 613) دارالجيل
(مادة 922) – (لو أتلف أحد مال الآخر وأنقص قيمته تسببا يعني: لو كان سببا مفضيا لإتلاف مال أو نقصان قيمته يكون ضامنا. مثلا: إذا تمسك أحد بثياب آخر وحال مجاذبتهما سقط مما عليه شيء أو تعيب يكون المتمسك ضامنا وكذا لو سد أحد ماء أرض لآخر أو روضته فيبست مزروعاته ومغروساته وتلفت أو أفاض الماء زيادة وغرقت المزروعات وتلفت يكون ضامنا. وكذا لو فتح أحد باب إصطبل لآخر وفرت حيواناته أو ضاعت أو فتح باب قفص وفر الطير الذي كان فيه يكون ضامنا) . والمراد بفعلہ ھو فعلہ الواقع بالتعدی، ویکون سبباً مفضیاً لتلفہ أونقصان قیمتہ. فعلیہ إذا أتلف أحد المال یضمن بدلہ کاملاً، وفی حال نقصان القیمة یضمن أحیاناً القیمة کلھا، وأحیاناً أخریٰ قیمة النقصان۔
( فقہی مقالات مفتی محمد تقی عثمانی ( 6/42) میمن اسلامیہ پبلشر)

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس