بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

کرایہ کے معاہدے کی شرعی حیثیت

سوال

ہمارا ایک کمرشل پلازہ ہے۔ جس میں موجود چند دو کا نیں کرایہ پر دی جاتی ہیں ۔ معاہدہ کرایہ داری مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ طے کیا جاتا ہے۔
نمبر۱۔ماہانہ کرایہ۔۔۔۔۔۔۔ طے پا گیا ہے۔ نمبر۲۔جتنے سال ( عرصہ) کے لیے کرایہ داری قائم کی گئی ہے اُس مدت کا پیشگی کرایہ وصول کر لیا گیا ہے۔ نمبر۳۔دوران مدت کرایہ داری کرایہ دار (محمد ارشد) اگر معاہدہ کرایہ داری ختم کرنا چاہتا ہے تو کرایہ دار (محمد ارشد ) متعلقہ دوکان کے لیے نیا کرایہ دار بندو بست کرنے کا خود سے ذمہ دار ہو گا ۔ نمبر۴۔ایسی صورت میں کرایہ دار ( محمد ارشد) کے ٹوٹل پیشگی وصول شدہ کرائے میں سے جتنا عرصہ کرایہ دار (محمد ارشد ) نے متعلقہ دوکان اپنے استعمال میں رکھی ہے۔ اس عرصہ کا کرایہ منہا ہو جائے گا اور بقایا پیشگی کرایہ وہ نئے آنے والے کرایہ دار صفدر خان ) سے لینے کا حقدار ہے۔ مالکان کو اس پر کچھ اعتراض نہ ہوگا۔ نمبر۵۔نئے کرایہ دار ( صفدر خان ) کے ساتھ شرائط کرایہ داری اور مدت کرایہ داری حسب سابق شرائط پر قائم اور برقرار رہے گی۔ نمبر۶۔نیا کرایہ دار ( صفدر خان ) مبلغ ۔۔۔۔۔ روپے بطور ٹرانسفر فیس مالکان دوکان ہذا کو دینے کا پابند ہوگا۔ نمبر۷۔پلازہ کا مین گیٹ صبح 8 بجے سے لے کر رات 11 بجے تک کھلا رکھا جائے گا اور صرف اسی دوران متعلقہ کرایہ داران کو پلازہ میں داخل ہو کر متعلقہ دوکان کو کھولنے کی اجازت حاصل ہوگی ۔ نمبر۸۔کرایہ دار کو شکمی کرایہ داری قائم کرنے حق حاصل نہیں ہے۔ نمبر۹۔کرایہ دار اپنے یوٹیلٹی بلز Utility Bills خود سے ادا کرنے کا پابند ہوگا۔ نمبر۱۰۔کرایہ دار کو متعلقہ دوکان کی حدود سے تجاوز کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ نمبر۱۱۔کرایہ دار متعلقہ دوکان میں ہونے والے کسی بھی نوعیت کے نقصان کا خود سے ذمہ دار ہوگا۔ نیز بجلی کا میٹرجل جانے ، خراب ہو جانے ، مالکان کی طرف سے لگائے پنکھوں شیشے کے فریم ہنٹرز ، ہر طرح کی بجلی کی فٹنگ رنگ و روغن میں کسی بھی نوعیت کا نقصان ہو جانے پر خود کے خرچے سے درست کرنے اور مدت معاہدہ کرایہ داری کے خاتے پر تمام inventory کو درست چالو حالت میں واپس کرنے کا پابند ہوگا۔
نوٹ: متعلقہ کرایہ دار نے مالکان اور گواہوں کی موجودگی میں معاہدہ کرایہ داری کی تمام شرائط و ضوابط کو پوری طرح سے پڑھ سن اور سمجھ کر کامل رضا مندی سے معاہدہ کرایہ داری ہذا پر دستخط ثبت کر دیتے ہیں تا کہ سند رہے۔
بعد از معاہدہ کرایہ داری ایک متعلقہ کرایہ دار کے تین اعتراضات
نمبرا۔ میں ( کرایہ دار) معاہدہ کرایہ داری ختم کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھ سے متعلقہ دوکان کے لیے نئے کرایہ دار کا انتظام نہیں ہوسکتا۔ لہذا مالکان میر ابقایا پیشگی کرایہ واپس کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
نمبر۲۔ میں نے نئے کرایہ دار کا بندوبست کیا ہے وہ ٹرانسفر فیس نہیں دینا چاہتا لہذا مالکان ٹرانسفر فیس چھوڑ دیں یا اُس میں کمی کریں۔
نمبر۳۔میں نے متعلقہ دوکان ماہانہ کرائے پر حاصل کی ہے لہذا میرا حق ہے کہ میں دوکان صبح جس وقت چاہوں کھولوں اور چاہے دیر تک کھلی رکھوں ۔
مالکان کی طرف سے تینوں اعتراضات کا مشتر کہ جواب
مذکورہ معترض کرایہ دار کو معاہدہ کرایہ داری کی تمام شرائط و ضوابط سے مکمل آگاہی اور واقفیت معاہدہ ہو نے سے قبل کرادی گئی تھی ۔ کرایہ دار سے زور ز بر دستی معاہدہ کرایہ داری قائم نہیں کیا گیا۔ کرایہ دار نے اپنی خوشی اور رضامندی سے سوچ سمجھ کر معاہدہ کرایہ داری پر دستخط کیے ہیں۔ جتنی بھی شرائط اور ضوابط کی آگاہی کروائی گئی تھی اُس کے بعد کوئی نامعلوم، ناگہانی اور جدید شرط بعد از معاہدہ کرایہ داری شامل نہیں کی گئی ہے۔ لہٰذا مالکان کی طرف سے معذرت ہے۔ اور کرایہ دار کوہی مذکورہ بالا طے شدہ تمام شرائط کی پابندی لازمی ہے۔ جیسا کہ معاہدہ کرایہ داری قائم ہونے کے بعد مالکان کی طرف سے نئی شرائط شامل کرنا درست نہیں ہے۔
علمائے کرام شرعی تناظر میں مذکورہ معاہدہ کرایہ داری کی شرائط بارے، کرایہ دار کے اعتراضات بارے اور مالکان کی طرف سے جواب بارے رہنمائی فرما کر مشکور فرمائیں ۔ نیز معاہدہ کرایہ داری قائم کرنے کے لیے مذکورہ بالا شرائط اور ضوابط طے کیے گئے ہیں۔ اُن میں سے کیا کوئی شرط غیر شرعی تو نہیں ہے خصوصا ٹرانسفر فیس۔ وضاحت فرمادیجئے۔

جواب

سوال کے ساتھ منسلک کرایہ داری کا معاہدہ اصولی طور پر درست ہے ،البتہ اس کی چند شقیں شرعاً درست نہیں جن کی تفصیل مع نمبر مندرجہ ذیل ہے
اس شق میں کرایہ دار پر پانچ سال سے پہلے معاہدہ کرایہ داری ختم کرنے پر نئے کرایہ دار کا بندوبست کرنے کی شرط لگانا شرطِ فاسد ہے ،لہذا اس سے احتراز کیا جائے ،البتہ کرایہ دار کو اس بات کا پابند کیا جا سکتا ہے کہ وہ عذرِ شرعی کے بغیر مقررہ مدت سے پہلے عقدِ اجارہ کو ختم نہیں کر سکتا ہے ۔ شق نمبر۳۔
شق نمبر۶۔
مالکِ دکان کے لیے نئے کرایہ دار کے ساتھ معاہدہ کرایہ داری کے کاغذات وغیرہ کی تیاری پر آنے والے حقیقی اخراجات لینے کی گنجائش ہے ،البتہ اس کے علاوہ الگ سے ٹرانسفر فیس وغیرہ لینا بلا عوض ہے جو شرعاً ناجائز ہے تا ہم مالک نئے کرایہ دار کے کرائے میں اضافہ کرنے کا مجاز ہے ۔
شق نمبر ۷۔
کرایہ داری کے معاہدے کے بعد چونکہ کرایہ دار دکان کے تمام منافع کا مالک بن جاتا ہے ،لہذا مالک ِ دکان کے لیے جائز نہیں کہ وہ دکان دار کو مخصوص اوقات میں دکان کھولنے کا پابند بنائے ،البتہ کسی واقعی مصلحت (سیکیورٹی مسائل وغیرہ)کے پیشِ نظر ایسی شرط کی گنجائش ہے ،نیز اگر عرف میں بھی ایسے پلازوں کو مخصوص اوقات میں کھولنے اور بند کرنے کی پالیسی ہو تو دکان دار کو اس پالیسی کے مطابق بھی اوقات کار کا پابند کیا جاسکتا ہے ۔
الهداية(3/230)داراحياء التراث العربي
“الإجارة: عقد على المنافع بعوض” لأن الإجارة في اللغة بيع المنافع۔
الجوهرة النيرة(1/ 259)المطبعة الخيرية
 (الإجارة عقد على المنافع بعوض) حتى لو حال بينه وبين تسليم المنافع حائل أو منعه مانع، أو انهدمت الدار لم يلزمه العوض؛ لأن المنافع لم تحصل له فدل على أنها معقودة على المنفعة۔
البحرالرائق(8/ 19)دارالكتاب الإسلامي
 قال – رحمه الله – (يفسد الإجارة الشرط) قال في المحيط كل جهالة تفسد البيع تفسد الإجارة؛ لأن الجهالة المتمكنة في البدل أو المبدل تفضي إلى المنازعة، وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين يفضي إلى المنازعة فيفسد الإجارة، وفي الغياثية الفساد قد يكون لجهالة قدر العمل بأن لا يعين محل العمل، وقد يكون لجهالة قدر المنفعة بأن لا يبين المدة، وقد يكون لجهالة البدل أو المبدل، وقد يكون لشرط فاسد مخالف لمقتضى العقد۔
الدرالمختار(6/ 46)دارالفكر
 (تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها)۔
رد المحتار(4/ 61) دارالفكر

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس