بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

کارگوکمپنی سےکسی کامال گم ہوگیااوراس کی جگہ دوسرےکامال دیدیا

سوال

ہمارامال کارگوسےآتاہے۔کارگوسےآتےوقت ہمارا مال تبدیل ہوگیا، ہمارامال کسی کوچلاگیا اورکسی کامال ہم کوآگیا،تقریباًڈھائی تین سال ہوگئےہم کوسنبھالتےہوئے،کارگووالوں نےبھی ہاتھ کھڑےکردیئےیعنی بدلنےاورتعاون کرنےسے۔ہمارامال کس کےپاس گیاہے،کچھ معلوم نہیں ،اورقیمت تقریباًدونوں کی برابرہے۔اب ہمارےپاس جومال رکھاہواہےاس کی کیاپوزیشن ہے؟شرعاًہمارےلئےکیاحکم ہےاس کاکیاکریں۔کیااستعمال کرسکتےہیں ؟ اوراس سےاپنےنقصان کی تلافی کرسکتےہیں؟
وضاحت: اکثرایساہوتاہےکہ کارگووالوں سےکسی کامال گم ہوجاتاہے،تووہ لوگ اس کوایسےلوگوں کامال دیدیتےہیں جوان کےپاس چھوڑجاتےہیں یالیکرنہیں جاتےتاکہ اس سےنقصان کی تلافی ہوسکے۔توہم کواسی طرح انہوں نےکسی کامال دیدیاہے،اورہمارا اصل مال ہم کونہیں دیا اورکہتےہیں کہ اس سےاپنانقصان پوراکرلو۔

جواب

صورت مسئولہ میں جب آپ کو یہ بات معلوم تھی کہ آپ کو دیا گیا مال کمپنی کی ملکیت نہیں ہے بلکہ کسی اور شخص کا مال ہے تواس کو اپنے مال کے بدلے میں وصول کر نا اوراس مال سے اپنےنقصان کی تلافی آپ کے لئےشرعاً جائز نہیں۔اس لئے آپ وہ مال کارگو کمپنی کو واپس کر دیں ۔
کارگو والوں کو چاہئے کہ پہلے تویہ کوشش کریں کہ اس کےمالک کو تلاش کر کے اس تک پہنچائیں اورجب پوری کوشش کے بعد کسی بھی ذریعہ سے اس تک رسائی سے مایوسی اور نا امیدی ہوجائے تومالک کی طرف سے صدقہ کردیں۔اگراس کے بعدمالک آجائے اوروہ صدقہ کرنے پرراضی نہ ہوبلکہ قیمت کامطالبہ کرے توقیمت دینالازم ہوگا۔البتہ اگر کارگو والے وہ مال واپس نہ لیتے ہو ں تو وہ شرعاً “لقطہ” کے حکم میں ہے ،جس میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ چونکہ اس وقت آپ کو کسی بھی ذریعہ سے اصل مالک تک اس مال کو پہنچانا ممکن نہیں رہا تو اصل مالک کی طرف سے نیت کر کےوہ مستحقین فقراء کو صدقہ کر دیں۔اور اگر آپ کے اہل خانہ میں سے کو ئی مستحق زکاۃ ہوتو اس کو بھی صدقۃً دیا جاسکتا ہے ۔
الفتاوى الهندية،نظام الدين البلخي(2/ 295)دارالفكر
امرأة وضعت ملاءتها فجاءت امرأة أخرى ووضعت ملاءتها ثم جاءت الأولى وأخذت ملاءة الثانية وذهبت لا ينبغي للثانية أن تنتفع بملاءة الأولى؛ لأنه انتفاع بملك الغير، فإن أرادت أن تنتفع بها قالوا ينبغي أن تتصدق هي بهذه الملاءة على ابنتها إن كانت فقيرة على نية أن يكون ثواب الصدقة لصاحبتها إن رضيت ثم تهب الابنة الملاءة منها فيسعها الانتفاع بها؛ لأنها بمنزلة اللقطة وإن كانت غنية لا يحل الانتفاع بها۔
ردالمحتار،العلامة ابن عابدين(م: 1252هـ)(5/ 98)سعيد
مطلب الحرمة تتعدد (قوله الحرمة تتعدد إلخ) نقل الحموي عن سيدي عبد الوهاب الشعراني أنه قال في كتابه المنن: وما نقل عن بعض الحنيفة من أن الحرام لا يتعدى ذمتين، سألت عنه الشهاب ابن الشلبي فقال: هو محمول على ما إذا لم يعلم بذلك، أما  لو رأى المكاس مثلا يأخذ من أحد شيئا من المكس ثم يعطيه آخر ثم يأخذ من ذلك الآخر آخر فهو حرام اهـ۔
الهداية،برهان الدين علي بن أبي بكر(م: 593هـ)(2 /417،418،419)داراحياء التراث العربي
وقيل الصحيح أن شيئا من هذه المقادير ليس بلازم ويفوض إلى رأي الملتقط يعرفها إلى أن يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها…قال: “فإن جاء صاحبها وإلا تصدق بها” إيصالا للحق إلى المستحق وهو واجب بقدر الإمكان وذلك بإيصال عينها عند الظفر بصاحبها وإيصال العوض وهو الثواب على اعتبار إجازة التصدق بها وإن شاء أمسكها رجاء الظفر بصاحبها۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس