بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

کاروبار میں شریک ہونے کا طریقہ کار

سوال

میرے ایک دوست کا لیمینشن کا کاروبار ہے میں اس کے ساتھ شریک ہونا چاہتاہوں ۔ میں اس کو ایک لاکھ روپے دوں گا وہ مجھے پہلے مہینے 4 ہزار منافع دے گا،پھر اگلے مہینے 4500 روپے نفع دے گا اس کے بعد 5000 ہزار ہر مہینے دے گا اس سے نہ کم اورنہ زیادہ دےگا۔ آیا میرا اس دوست کے ساتھ یہ معاملہ کرنا کیساہےیہ سود کے زمرے میں تو نہیں آتا۔اگر سود کے زمرے میں آتاہے تو اس کا متبادل حل بتادیں۔

جواب

سوال میں ذکر کردہ طریقے سے کاروبار میں شراکت درست نہیں بلکہ اس کی جائز صورت یہ ہے کہ اس معاملے کو شرعی شرکت کی بنیاد پر عمل میں لایا جائے۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ اولاً فریقین اپنے اپنے سرمائے کا تعین کریں اور پھر منافع کو فیصد کے لحاظ سے طے کریں کہ کاروبار سے ہونے والے نفع میں سے کس کو کتنا حصہ ملےگا۔ کسی فریق کےلیے کوئی متعین رقم نفع کے طور پر طے نہ ہو۔اور یہ طے کریں کہ فریقین اپنے اپنے سرمائے کے تناسب سے نقصان میں بھی شریک ہوں گے ۔جب عملاً کاروبار شروع ہوجائے تو مکمل حساب کرکے نفع نقصان کا تعین کریں اندازے سے نہ کریں۔ اور نفع کو طے شدہ تناسب کے مطابق آپس میں تقسیم کریں۔
:فتح القدير (6/ 183) دار الفكر
قوله (ولا تجوز الشركة إذا شرط لأحد دراهم مسماة من الربح) قال ابن المنذر: لا خلاف في هذا لأحد من أهل العلم. ووجهه ما ذكره المصنف بقوله لأنه شرط يوجب انقطاع الشركة فعساه لا يخرج إلا قدر المسمى فيكون اشتراط جميع الربح لأحدهما على ذلك التقدير، واشتراطه لأحدهما يخرج العقد عن الشركة إلى قرض أو بضاعة على ما تقدم وقوله (ونظيره في المزارعة) يعني إذا شرطا لأحدهما قفزانا مسماة بطلت لأنه عسى أن لا تخرج الأرض غيرها۔
:مجلة الأحكام العدلية (4/332)رشیدیة
المادة (1411) يشترط في المضاربة أن يكون رأس المال معلوما كشركة العقد أيضا وتعيين حصة العاقدين من الربح جزءا شائعا كالنصف والثلث ولكن إذا ذكرت الشركة على الإطلاق بأن قيل مثلا ” الربح مشترك بيننا ” يصرف إلى المساواة.المادة (1412) إذا فقد شرط من الشروط المذكورة آنفا بأن لم تعين مثلا حصة العاقدين جزءا شائعا بل قطعت وعينت على أن يعطي أحدهما كذا درهما من الربح تفسد المضاربة۔
:الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 200) دار احياء التراث العربي – بيروت
قال: “ومن شرطها أن يكون الربح بينهما مشاعا لا يستحق أحدهما دراهم مسماة” من الربح لأن شرط ذلك يقطع الشركة بينهما۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس