بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

کاروبار میں دو شرکاء میں سے ایک شریک کے انتقال کےبعداس کےحصہ سےپیداشدہ نفع کاحکم

سوال

کا روبا ر کے دو شرکاء میں سے ایک شریک کا انتقال ہو جانے پر کاروبار چلتا رہے اور تین ماہ کے بعد مرحوم کے ورثاء کو کا روبار میں سے حصہ دیا گیاتو کیا تین ماہ کے عر صے کے دوران مرحوم کے سرمایہ سے ہونے والے نفع کو ورثاء کے حوالے کیا جائے گا اور کا روبار کو مرحوم کی موت کے بعد چلانے والا فریق اپنی محنت کی اجرت وصول کر لے تو شرعا جائز ہے ؟

جواب

کاروبار کے دوشریکوں میں سے جب ایک شریک کا انتقال ہوا تو ان دونوں کے مابین عقدِ شرکت ختم ہوگیا، اس کے بعد اگر زندہ شریک نے فوت شدہ شریک کے ورثاءکی اجازت سے کاروبار جاری رکھاتو ایسی صورت میں منافع میں بھی وہ حصہ دار ہوں گے،اور اگربلااجازت ایسا کیا تو اس دوران(ایک شریک کے انتقال کے بعد) جتنا نفع ہوا ہے فوت شدہ شریک کے ورثاء اس نفع میں حقدار نہیں ہوں گےبلکہ شریکِ عامل ہی حقدار ہو گا ۔ البتہ اس نے سخت گناہ کا ارتکاب کیا ہے اس لئے اس پر توبہ و استغفار کرے اورفوت شدہ شریک کے حصہ کی بقدر حاصل ہونے والے نفع کو صدقہ کر دےاور اگراس نفع کو ورثاء کو دینا چاہے تو اس کا بھی اختیار ہے۔
المحيط البرهاني،برهان الدين محمود بن أحمد(م: 616ھ)(6 / 17)دارالكتب العلمية
 ولو مات أحد الشريكين انفسخت الشركة علم الشريك بموته أو لم يعلم۔
رد المحتار،العلامة ابن عابدين الشامي(م:1252ھ)(6 / 189)دارالفكر
أصله أن الغلة للغاصب عندنا؛ لأن المنافع لا تتقوم إلا بالعقد والعاقد هو الغاصب فهو الذي جعل منافع العبد مالا بعقده، فكان هو أولى ببدلها، ويؤمر أن يتصدق بها لاستفادتها ببدل خبيث وهو التصرف في مال الغير درر۔
    درر الحكام في شرح مجلة الأحكام  علي حيدر(المتوفى: 1353ھ)(3/ 52)دارالجيل
            فإذا تصرف أحد الورثة في التركة المشتركة وربح فالربح يكون للعامل خاصة (الہندية)… مثلا لو أخذ أحد الورثة من تركة مورثہ بدون إذنہم مائة دينار وباع واشترى بہا فربح خمسين دينارا فتكون الخمسون دينارا لہ وليس للورثة الآخرين الاشتراك في ہذا الربح ويكون ذلك الوارث ضامنا للورثة حصصہم في رأس المال۔
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام علي حيدر(المتوفى: 1353ھ)(3/ 365)دارالجيل
          الشريكان سواء في شركة المفاوضة أو شركة العنان أمينا بعضہما لبعض(الطحطاوي) وبتعبيرآخر يد أحد الشريكين على مال الشركة يد أمانة لأن القاعدة أن المال المأخوذ بإذن صاحبہ أمانة في يد الآخذ كالوديعة والمستعاروالمال المأجور والمال المرہون۔
رد المحتار العلامة ابن عابدین(5/ 97)سعید
 فإذا تصرف الغاصب أو المودع في العرض أو النقد يتصدق بالربح لتعلق العقد بمال غيرہ۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس