بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

چائینز۔ین کا پاکستانی روپیوں کے ساتھ تبادلہ

سوال

مفتی صاحب میرا دوست چائنہ سے کاروبار کر رہا ہے اس کی رقم پہلے بذریعہ بنک آتی تھی لیکن کچھ مشکلات کی وجہ سے وہ بنک سے نہیں منگوا رہا اس نے مجھ سے رابطہ کیا کہ وہ چائنہ کی کرنسی چائنہ میں سیل کر کے آپ مجھے پاکستانی کرنسی میں مجھے یہاں رقم ادا کر دیں ،میرا ایک دوست چائنہ میں ہوتا ہے میں اور وہ مل کر کرنسی سیل کرتے ہیں جو دوست پاکستان میں ہوتا ہے اس سے ہمارا ریٹ انٹر بنک کے ریٹ کے مطابق طے ہوا ہے اس کے اوپر ہم کچھ مارجن ( پرافٹ) رکھ کر سیل کر دیتے ہیں آیا کہ یہ ہم جو کام کر رہے ہیں یہ کام ٹھیک ہے ؟اور اس میں جو مارجن(پرافٹ) لے رہے ہیں یہ جائز ہے؟

جواب

سوال میں ذکرکردہ صورتِ حال میں آپ کا اپنے دوست کے چائینیز”ین”چائنہ میں انٹر بنک کے مطابق خرید کر پاکستان میں اس کو پاکستانی روپوں میں ادائیگی کرنا”ہنڈی”ہے اور پاکستانی قانون کی رو سے ہنڈی کے ذریعے رقم منتقل کرنا ممنوع ہے، لہذا آپ اس طریقہ کو اختیار کرنے سے اجتناب کریں ،آپ کو چاہئے کہ آپ لیگل طریقہ کے مطابق ٹرانزیکشن کریں۔
البتہ مختلف ممالک کی کرنسی کا نفع کے ساتھ آپس میں تبادلہ کا کاروبار کرنا فی نفسہ جائز ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ سودا کرتے ہوئے دونوں میں سے کسی ایک کرنسی پر مجلس کے اندر قبضہ ہوجائے، کسی ایک ملک کی کرنسی پر قبضہ کیے بغیر مختلف کرنسیوں کی نفع کے ساتھ خریدوفروخت شرعا جائز نہیں، لہذا سوال میں ذکرکردہ صورت میں اگر آپ چائنہ میں چائنہ کی کرنسی لے کر اس پر قبضہ کرکے انٹربنک کے ریٹ سے پاکستان میں پاکستانی روپیہ ان کو دیدیتےہیں اور بعد میں چائینیز کرنسی مارکیٹ ریٹ پر فروخت کرکے نفع حاصل کرتے ہیں تویہ نفع ناجائز نہیں ہے، تاہم ہنڈی کے کام کا حکم اوپر تحریر کردیا گیاہے۔
قال اللہ تعالیٰ
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ} [النساء: 59]
الدر المختار (5/ 179)
(باع فلوسا بمثلها أو بدراهم أو بدنانير فإن نقد أحدهما جاز) وإن تفرقا بلا قبض أحدهما لم يجز۔
بحوث في قضايا فقهية معاصرة (ص: 167)
وعملات الدول المختلفة أجناس مختلفة؛ وذلك لأن العملة اليوم لا يقصد بها مادتها، وإنما هي عبارة عن عيار مخصوص لقوة الشراء، وإنذلك العيار يختلف باختلاف البلاد، كالربية في باكستان والريال في المملكة السعودية والدولار في أمريكا، وما إلى ذلك، وأن عيار كل دولة ينبني على قائمة أسعارها، وقدر إيرادها وإصدارها، وليس هناك شيء مادي ينبئ عن نسبة ثابتة بين هذه العيارات، وإنما تختلف هذه النسبة كل يوم، بل كل ساعة، بناء على تغير الظروف الاقتصادية في شتى البلاد، ولذلك لا يوجد بين عملات البلاد المختلفة علاقة ثابتة تجعل هذه العملات جنسا واحدا۔۔۔فتبين أن عملات الدول المختلفة أجناس مختلفة، ولذلك تختلف أسماؤها وموازينها ووحداتها المنشعبة منها. ولما كانت عملات الدول أجناسا مختلفة جاز بيعها بالتفاضل بالإجماع۔۔۔وهل يجوز هذا البيع نسيئة؟ كما هو معمول به اليوم عند كثير من التجار وعامة الناس، أنهم يعطون عملة بلدهم، بشرط أن يؤدي الآخذ بدلها في شكل عملة بلد آخر بعد مدة، مثل أن يعطي زيد عمرا ألف ريال سعودي في المملكة السعودية، بشرط أن يؤدي عمرو بدلها أربعة آلاف ربية باكستانية في باكستان. فأما عند الحنفية فيجوز هذا البيع۔۔۔ولكن جواز النسيئة في تبادل العملات المختلفة يمكن أن يتخذ حيلة لأكل الربا۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس