بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

پرچیزر(وکیل بالشراء) کاموکل کمپنی کوچیزنفع رکھ کردینا

سوال

ہماری کمپنی کا پر چیزر/وکیل با لشراءمارکیٹ سے اپنے پیسوں سے کوئی چیز خرید کر اس پر نفع رکھ کر اپنی کمپنی /مو کل کو لاکر دے اور اپنے دل میں یہ سمجھے کہ میں نے اپنی طرف سے کمپنی کو بیچ دی ہے جبکہ مالکان کمپنی /موکل اس پوشیدہ بیع سے لاعلم ہیں ۔
نمبر1:۔توکیااس صورت میں ہمارے پرچیزر /وکیل با لشراء کو حاصل ہونے والانفع اس کے لئےحلال ہوگا؟
نمبر 2:۔پرچیزر/وکیل با لشراء کی طرف سے کمپنی کو بیچی جانے والی چیز کانرخ مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہونے پر اس بیع /نفع کاکیا حکم ہوگا؟اور مارکیٹ سے زیادہ ہونے پر اس بیع /نفع کاکیاحکم ہوگا؟
نمبر3:۔اب تک پر چیزر /وکیل با لشراء اس طریقہ پر جونفع اپنی کمپنی /موکل سے کماتارہاہے کیا کمپنی /موکل اپنے ملازم پرچیزر /وکیل با لشراء سے اس نفع کی واپسی کے مطالبے کاحق رکھتاہے ؟

جواب

نمبر1،2۔ پرچیزر(وکیل بالشراء)کمپنی کا شرعاً ایسا ملازم ہے جو کمپنی کی طرف سے سونپی گئی ذمہ داری میں امین ہے اور اس ذمہ داری میں کسی بھی قسم کی کوتاہی”خیانت “ہے،جو شرعاً جائز نہیں۔ اورصورت مذکورہ میں کمپنی اور اس کے درمیان کو ئی ایسا عقد یا معاہدہ نہیں ہو ا کہ جس کی بنیاد پر شریعت اس کو اپنانفع رکھنے کا حق دے ۔لہٰذا وہ پرچیزر صرف کمپنی سےاتنے ہی پیسے لے گا جتنےکی اس نے کمپنی کے لئے خریداری کی ہے۔اپنا نفع رکھنا اس کے لئے ناجائز اور حرام ہے۔نیز کم یا مناسب قیمت پر خریداری کرناعین اس کے عہدے کی دیانت داری اور کام کی امانت داری کا تقاضاہے ۔
نمبر3:۔پرچیزر پر لازم ہے کہ جو نفع اس نےا ب تک مذکورہ طریقہ سے کمایا ہے وہ کمپنی کوواپس لوٹائےیا ان سے معاف کروائے ۔ (تجارتی کمپنیوں کا لائحہ عمل ،(ص98) ادارہ اسلامیات )
صحيح البخاري، محمد بن إسماعيل(م: 256هـ)(1/16)دارطوق النجاة
24 – عن أبي هريرة عن النبيِّ – صلى الله عليه وسلم – قال:” آية المنافقِ ثلاثٌ: إِذا حدَّث كذَب، وِإذا وعدَ أَخلفَ، وِإذا اْؤتمِنَ خانَ”۔
 الفتاوى الهندية،لجنة العلماء برئاسة نظام الدين البلخي(3/574)دارالفكر
الوكيل بالشراء يجوز أن يشتري بمثل القيمة وزيادة يتغابن الناس في مثلها قال الإمام خواهر زاده: هذا فيما ليست له قيمة معلومة عند أهل ذلك البلد، وأما ما له قيمة معلومة عندهم كالخبز واللحم إذا زاد لا يلزم الآمر قلت الزيادة أو كثرت كذا في الجوهرة النيرة ۔
وفیه أيضًا(3/567) دارالفكر
ومنه أنه أمين فيما في يده كالمودع فيضمن بما يضمن به المودع ويبرأ به۔
المحيط البرهاني، برهان الدين محمودبن أحمد(م:616هـ)(7/603)دارالكتب العلمية
الفصل التاسع والعشرون: في التوكيل في الإجارة. وإذا وكل الرجل رجلاً بأن يستأجر له داراً بعينها ببدل معلوم ففعل، فالآجر يطالب الوكيل بالأجرة، والوكيل يطالب الموكل وللوكيل أن يطالب الموكل بالأجرة، وإن لم يطالبه الآجر. وإذا وهب الآجر الأجر من الوكيل، وأبرأه صح. وللوكيل أن يرجع بالأجر على الآمر الفصل التاسع والعشرون: في التوكيل في الإجارة.وإذا وكل الرجل رجلاً بأن يستأجر لهُ داراً بعينها ببدل معلوم ففعل، فالآجر يطالب الوكيل بالأجرة، والوكيل يطالب الموكل وللوكيل أن يطالب الموكل بالأجرة، وإن لم يطالبه الآجر. وإذا وهب الآجرالأجر من الوكيل، وأبرأه صح. وللوكيل أن يرجع بالأجر على الآمر.لأن الدنانير أمانة في يده؛ لأنه قبضها بحكم الوكالة، والوكيل أمين فيما في يده بحكم الوكالة۔
دررالحكام في شرح مجلة الأحكام،علي حيدر (م:1353هـ)(3/550)دارالجيل
 (لا يشترط إضافة العقد إلى الموكل في البيع والشراء والإجارة والصلح عن إقرار، فإن لم يضفه إلى موكله واكتفى بإضافته إلى نفسه صح أيضا، وعلى كلتا الصورتين لا تثبت الملكية إلا لموكله، ولكن إن لم يضف العقد إلى الموكل تعود حقوق العقد إلى العاقد يعني الوكيل، وإن أضيف الی الموکل…  لكن إذا لم يضف العقد إلى موكله ولم يكن الوكيل محجورا، تعود حقوق العقد إلى العاقد أصالة أي إلى الوكيل، والوكيل وإن كان نائبا في أصل العقد فهو أصيل في الحقوق ويكون الموكل في الحقوق المذكورة أجنبيا. وسواء ذكر حين التوكيل كون الحقوق المذكورة عائدة للوكيل أو لم يذكر وسواء كان الوكيل غائبا أو حاضرا (التنوير)۔
المبسوط، شمس الأئمةمحمدبن أحمد السرخسي(م:483هـ)(19/59 )دارالمعرفة
والثاني – أن الوكيل أمين مخبر بما يجعل مسلطا عليه۔
وأیضا فیہ ،باب القرض والصرف فیہ(14/ 40) دار المعرفة
والوكيل أمين فيما دفعه الموكل إليه من ماله فإن صرفها۔
تبيين الحقائق، العلامة فخر الدين الزيلعي (م:743هـ)(4/ 261) بولاق، القاهرة
(قوله: ويكون قبضه قبض المو   كل)، وإذا سلمه حقيقة سقط حق الحبس فكذا إذا سلمه حكما ولأن الوكيل أمين ألا ترى أنه لا يضمن بالهلاك عنده كالمودع فليس للأمين حق الحبس بعد طلب المودع. اهـ. غاية۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس