بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

ٹیکس سے بچنے کے لیے مال کی قیمت حقیقت کے خلاف ظاہر کرنا/اضافی کسٹم ڈیوٹی سے بچنے کے لیے پرائیویٹ وکیل سے معاملہ کرنا

سوال

مسئلہ یہ ہے کہ بعض تاجر حضرات جو دوسرے ممالک سے مال منگواتے ہیں یعنی(import) کرتے ہیں۔بیرون ممالک سے ان کی خریداری زیادہ نرخ پر ہوتی ہے لیکن مارکیٹ میں مقابلہ بازی (competition) کی وجہ سے وہ اپنے مال کا پڑتایعنی ریٹ(cost)کم رکھنے کی غرض سے اس مال کی خریداری کم نرخ پر ظاہر کرتے ہیں اس  طرح کسٹم ڈیوٹی ،سیلز ٹیکس اور دیگر متفرق ٹیکسز میں کمی ہو جاتی ہے۔ کسٹم کے اہلکار  کچھ ذاتی رقم  لے کر اسے (ok)جاری کردیتے ہیں اس طرح مال کی (COST)کم ہوجاتی ہے اگر یہ نہ کرے تو مارکیٹ میں ان کے نرخ بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے  فروختگی نا ممکن ہوگی یا پھر بہت کم ہوگی یا پھر خدانخواستہ نقصان ہوگا۔ اس لیے کہ دوسری پارٹی  پہلے ہی کم نرخ پر مال فروخت کر رہی ہوتی ہے  ۔آپ سے یہ معلوم کرنا ہے کہ آیا موجودہ غیر اسلامی طرز حکومت سودی معیشت اور غیر شرعی ٹیکسز کی موجودگی میں یہ طریقہ درست ہے یا نہیں ؟اگر درست نہیں ہے تو پھر متبادل طریقہ کیسے اختیار کیا جا سکتا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں حقیقی ظالمانہ ٹیکس  سے بچنے کے لیے  صریح جھوٹ بولے/لکھے بغیر  کسٹم سے کاغذات میں کم قیمت لکھ کر چھڑانا اگر ممکن ہو تو اس کی شرعا گنجائش ہے اور اس کام کے لیے وکیل کرنا اور اس کو اجرت دینا بھی درست ہے ،بشرطیکہ وہ وکیل کسٹم کے اہلکار اور  ملازم نہ ہو بلکہ اس کام  کو بخوبی جانتا ،سمجھتا  ہو اور تعریض وتوریہ (یعنی مکمل الفاظ بول کریا لکھ کرصریح جھوٹ سے اعراض کرنا)کرکے کاغذات چھڑا سکے۔ (ماخذہ:فتاوی دارالعلوم کراچی 6/63)
:شرح النووی علی الصحیح المسلم،محی الدین النووی(م:676ھ)(7/242)البشری
قالوا: وما جاء من الإباحة في هذا المراد به التورية، واستعمال المعاريض لا صريح الكذب، مثل أن يعد زوجته أن يحسن إليها ويكسوها كذا، وينوي إن قدر الله ذلك، وحاصله أن يأتي بكلمات محتملة یفھم المخاطب منها ما يطيب قلبه، وإذا سعى في الإصلاح نقل عن هؤلاء إلى هؤلاء كلاما جميلا، ومن هؤلاء إلى هؤلاء كذلك وورى، وكذا في الحرب بأن يقول لعدوه :مات إمامكم الأعظم، وينوي إمامهم في الأزمان الماضية، أو غدا يأتينا مدد أي طعام ونحوه، هذا من المعاريض المباحة، فكل هذا جائز، وتأولوا قصة إبراهيم ويوسف وما جاء من هذا على المعاريض، والله أعلم. وأما كذبه لزوجته وكذبها له، فالمراد به إظهار الود والوعد بما لا يلزم ونحو ذلك، فأما المخادعة في منع ما عليه أو عليها أو أخذ ما ليس له أو لها، فهو حرام بإجماع۔
:أوجزالمسالک،محمد زکریا الکاندھلوی(م:1402ھ)(17/493)
وقال الباجي : قوله لا خير في الكذب يريد كذباً ينافي الشرع وأما ما كان لإصلاح، فقد روي فيه حديث ليس إسناده بذاك كل الكذب يكتب على ابن آدم إلا ثلاثاً، كذب الرجل لامرأته ليرضيها، ورجل كذب ليصلح بين اثنين، ورجل كذب في خديعة حرب، وهذا الحديث من رواية شهر بن حوشب….وقال شيخ مشايخنا الكنكوهي قدس سره في الكوكب: الكذب ههنا أي في حديث الإصلاح بين الناس هو معناه الحقيقي إلا أن العلماء احتاطوا ، فقالوا : المراد به التورية ردعاً للعوام عن الاجتراء عليه، وتسميته كذباً بحسب ما فهمه المخاطب من كلامك ۔
:تکملۃ فتح الملھم،محمد تقی العثمانی(5/211)دارالعلوم کراچی
قوله : «لَيْسَ الكَذَّابُ الذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ» به استدل من أجاز الكذب الصريح للإصلاح بين الناس، وفي المحاربة مع أعداء الله، وقال الآخرون: المأذون فيه ليس صريح الكذب، وإنما هو التعريض والتورية والكناية التي ظاهرها مخالف للواقع، وباطنها المراد ليس كذلك، مثل أن يقول : إن أخاك فلاناً يدعو لك، ويضمر في نفسه أنه يدعو للمؤمنين عامة، فيدخل فيهم المخاطب ۔
:مجمع الانھر،عبدالرحمن بن محمد(م:1078ھ)(4/221)مکتبۃ المنار
والكذب حرام إلا في الحرب للخدعة، وفی الصلح بين اثنين، وفي إرضاء الأهل، وفي دفع الظالم عن الظلم) لأنا أمرنا بهذا، فلا يبالي فيه الكذب إذا كانت نيته خالصة ویكره التعریض به) أي بالكذب (إلا لحاجة) كقولك لرجل كل فيقول أكلت يعني أمس، فلا بأس به لأنه صادق في قصده، وقيل یكره لأنه كذب في الظاهر۔
:الدر المختار،علاء الدین الحصکفی(م:1088ھ)(6/ 427)ایچ۔ایم۔سعید
الكذب مباح لإحياء حقه ودفع الظلم عن نفسه والمراد التعريض لأن عين الكذب حرام۔
:فتح القدير، ابن الهمام(م:861ھ)(7/ 223)دارالفکر
قال شمس الائمۃ:أما في زماننا فأكثر النوائب تؤخذ ظلما، ومن تمكن من دفع الظلم عن نفسه فهو خير له۔
:الفتاوى الهندية،لجنۃ علماء برئاسۃ نظام الدین البلخی(5/ 339)رشیدیۃ
رجل قال لآخر كم أكلت من تمري؟ فقال خمسة، وهو قد أكل العشرة لا يكون كاذبا، وكذا لو قال بكم اشتريت هذا الثوب؟ فقال بخمسة، وهو قد اشترى بعشرة لا يكون كاذبا، كذا في الخلاصة۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس