بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

ٹھیکہ والی زمین میں عشر کس پر آئے گا؟

سوال

ایک مسئلہ میں راہ نمائی چاہئے وہ یہ ہے کہ بندہ نے زرعی زمین ٹھیکے پرلی ہے ٹھیکہ یہ ہے کہ ایک ایکڑ پر 200 کلو گندم دینی ہے ٹھیکہ صرف کسان نے دینا ہے اس زمین کو ٹیوب ویل کے ذریعے پانی دیاجاتاہے کچھ ٹیوب ویل شمسی بجلی پر چلتے ہیں اور کچھ عام بجلی پر جو واپڈا والی ہے اس پر چلتے ہیں ۔
ٹیوب ویل والے زمین کی پیداوار کا آدھا حصہ لیتے ہیں، خرچہ کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ شروع میں زمین کو سیدھا کرنے یاجو دوسرے کام ہیں ان کا خرچہ صرف کسان دیتاہے ۔کسان سے مراد جس نے زمین ٹھیکے پرلی ہے ، لیکن جب زمین میں بیج ڈالا جاتاہے اس کے بعد جتنا خرچہ ہوتاہے وہ ٹیوب ویل والا اور کسان نصف نصف دیتے ہیں ۔ اب تھریشر کے بعد سب سے پہلے گندم کی کٹائی اور تھریشر کا خرچہ نکالا جاتاہے مجموعی گندم سے پھر بقیہ گندم کو کسان اپنے حصہ سے ٹھیکہ ادا کرتاہے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ
نمبر1-عشر کس کس نے اداکرنا ہے؟
نمبر2-دسواں حصہ دینا ہے یا بیسواں؟
نمبر3-کسان نے جو عشر دینا ہے وہ ٹھیکہ، کتائی اور تھریشر کو شمار کرکے دینا ہے یا ان کو نکال کر مہربانی فرماکر اس مسئلہ کی وضاحت فرماہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں کسان نے زمین کرایہ پر لے کر ٹیوب ویل کے مالک سے جو عقد مزراعت کیاہے اس میں چونکہ زمین، آلہ کاشت یعنی ٹریکٹر وغیرہ اور عمل صرف کسان کے ذمہ ہے اور ٹیوب ویل والے کے ذمہ صرف پانی، کھاد ، ادویات وغیرہ کا نصف خرچ ہے اس لئے یہ عقد مزارعت شرعا فاسد ہے فریقین پر لازم ہے کہ اس عقد فاسد کے کرنے پر توبہ واستغفار کریں اور آئندہ ایسا معاملہ کرنے سے گزیز کریں ۔ نیز مذکورہ صورت میں اس طرح جائز متبادل اختیار کیاجاسکتا ہے کہ ٹیوب والے شخص سے عقد مزارعت نہ کیاجائے بلکہ ٹیوب ویل کو اجارہ پر لیکر اس کی گندم یا نقدی کی صورت میں طے کردہ اجرت ادا کی جائے اور کھاد وبیج وغیرہ کے اخراجات کی رقم حاصل کرنے کےلئے ٹیوب ویل والاشخص کسان كے ساتھ نئے معاہدے کے تحت بیع سلم کرلے جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ ٹیوب ویل والاشخص گندم کی مقدار اور اس کی قیمت طے کرکے پوری قیمت مجلس عقد میں کسان کے حوالے کرے اوریہ طے کرے کہ جب فصل تیار ہوجائے تو اس رقم کے بدلے متعینہ مقدار میں گندم اداکرے گا ،نیز یہ دونوں معاملے علیحدہ ہوں گے ایک دوسرے پر موقوف نہیں ہوں گےاورچونکہ صورتِ مسئولہ میں فاسد معاملہ پر عمل درآمد بھی ہوچکا ہے اس لئے اس صورت میں پوچھے گئے سوالات کے جوابات مندجہ ذیل ہیں۔
نمبر(1،2،3)فصل کی سیرابی پر چونکہ اخراجات ہوتے ہیں اس لئے نصف عشر(کل پیداوار کا بیسواں حصہ)ادا کیاجائے گا، نصف عشر کسان اور ٹیوب ویل والا دونوں اپنے حصے کی گندم دا کریں گے۔ نصف عشر تھریشر، ٹھیکہ اور کٹائی کے اخراجات منہا کیے(نكالے) بغیر ادا کیاجائے یعنی نصف عشر کی ادائیگی سے پہلے ان اخراجات کو فصل سے منہاکرنا(نکالنا) جائز نہیں گا۔
صحيح البخاري (2/ 126) دار طوق النجاة
عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «فيما سقت السماء والعيون أو كان عثريا العشر، وما سقي بالنضح نصف العشر»۔
تنوير الابصار مع شرحه (2/ 328) دارالفكر
(و) يجب (نصفه في مسقي غرب) أي دلو كبير (ودالية) أي دولاب لكثرة المؤنة وفي كتب الشافعية أو سقاه بماء اشتراه وقواعدنا لا تأباه۔۔
رد المحتار (2/ 328) دارالفكر
 (قوله: وقواعدنا لا تأباه) كذا نقله الباقاني في شرح الملتقى عن شيخه البهنسي؛ لأن العلة في العدول عن العشر إلى نصفه في مستقى غرب ودالية هي زيادة الكلفة كما علمت وهي موجودة في شراء الماء ولعلهم لم يذكروا ذلك؛ لأن المعتمد عندنا أن شراء الشرب لا يصح وقيل إن تعارفوه صح وهل يقال عدم شرائه يوجب عدم اعتباره أم لا تأمل نعم لو كان محرزا بإناء فإنه يملك فلو اشترى ماء بالقرب أو في حوض ينبغي أن يقال: بنصف العشر؛ لأن كلفته ربما تزيد على السقي بغرب أو دالية۔۔
رد المحتار(2/ 335) دار الفكر
والحاصل أن العشر عند الإمام على رب الأرض مطلقا وعندهما كذلك لو البذر منه ولو من العامل فعليهما وبه ظهر أن ما ذكره الشارح هو قولهما اقتصر عليه لما علمت من أن الفتوى على قولهما بصحة المزارعة فافهم، لكن ما ذكر من التفصيل يخالفه ما في البحر والمجتبى والمعراج والسراج والحقائق الظهيرية وغيرها من أن العشر على رب الأرض عنده عليهما عندهما من غير ذكر التفصيل وهو الظاهر لما في البدائع من أن المزارعة جائزة عندهما والعشر يجب في الخارج والخارج بينهما فيجب العشر عليهما۔
الهداية فی فتح القدير  (2/ 250)دارالفكر
قال (وكل شيء أخرجته الأرض مما فيه العشر لا يحتسب فيه أجر العمال ونفقة البقر)۔۔
:فتح القدير
(قوله لا يحتسب فيه أجر العمال ونفقة البقر) وكري الأنهار وأجرة الحارس وغير ذلك، يعني لا يقال بعدم وجوب العشر في قدر الخارج الذي بمقابلة المؤنة بل يجب العشر في الكل۔
بدائع الصنائع (6/ 180) دار الكتب العلمية
وأما الشرائط المفسدة للمزارعة فأنواع: وقد دخل بعضها في بيان الشرائط المصححة (منها) : شرط كون الخارج لأحدهما؛ لأنه شرط يقطع الشركة التي هي من خصائص العقد (ومنها) : شرط العمل على صاحب الأرض؛ لأن ذلك يمنع التسليم، وهو التخلية. (ومنها) : شرط البقر؛ لأن فيه جعل منفعة البقر معقودا عليها مقصودة في باب المزارعة ولا سبيل إليه. (ومنها) شرط العمل والأرض جميعا من جانب واحد؛ لأن ذلك خلاف مورد الشرع الذي هو خلاف القياس على ما مر في الفصول المتقدمة۔
بدائع الصنائع  (5/ 207)
وأما الذي يرجع إلى المسلم فيه فأنواع أيضا. (منها) أن يكون معلوم الجنس كقولنا: حنطة أو شعير أو تمر. (ومنها) أن يكون معلوم النوع. كقولنا: حنطة سقية أو نحسية، تمر برني أو فارسي هذا إذا كان مما يختلف نوعه، فإن كان مما لا يختلف فلا يشترط بيان النوع (ومنها) أن يكون معلوم الصفة. كقولنا: جيد أو وسط أو رديء. (ومنها) أن يكون معلوم القدر بالكيل أو الوزن أو العد أو الذرع؛ لأن جهالة النوع، والجنس، والصفة، والقدر جهالة مفضية إلى المنازعة وأنها مفسدة للعقد، وقال النبي: – عليه الصلاة والسلام – «من أسلم منكم فليسلم في كيل معلوم ووزن معلوم إلى أجل معلوم» . (ومنها) أن يكون معلوم القدر بكيل، أو وزن، أو ذرع يؤمن عليه فقده عن أيدي الناس۔
ملتقى الأبحر (ص: 144)دار الكتب العلمية
وقبض رأس المال قبل التفرق شرط بقائه، فلو أسلم مائة نقدا ومائة دينا على المسلم إليه في كر بطل في حصة الدين فقط۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس