بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

ووٹ کی شرعی حیثیت ،ووٹ نہ دینایااپنےمفادکی خاطردینا

سوال

مملکتِ خدادادپاکستان میں انتخابات کاجوطریقہ رائج ہے:کہ ووٹنگ کےاعتبارسےممبران قومی اسمبلی منتخب ہوتےہیں۔جس میں ہرایک اعلی اورادنی شخص كا ووٹ ایک ہی حیثیت رکھتا ہے،اسی طرح بلدیاتی انتخابات کابھی یہی طریقہ ہے۔
نمبر۱۔ شریعت میں ان انتخابات اورووٹ کی کیاحیثیت ہے؟
نمبر۲۔ اگرکوئی شخص ووٹ دینےسےانکارکرےیاسستی کرے:کہ میرےایک ووٹ کی وجہ سےکیافرق پڑ جائے گا(جب کہ ایک شخص کی غفلت سےاقتدارغلط لوگوں کےہاتھوں میں جاسکتاہے)یااپنےذاتی مفادکی خاطرووٹ دےایسےشخص کاکیاحکم ہے؟

جواب

نمبر۱۔انتخابات کے مروّجہ طریقہ کار میں اسلامی نقطہ نظر سے بہت سےمفاسد کی اصلاح کی ضرورت ہے ، مثلاً ایک خرابی یہ ہےکہ انتخابات کی مہم میں طلبِ اقتدار کے لئے آدمی از خود امیدوا ربن کر کھڑا ہو تا ہے ۔اپنی تشہیر و تعارف کےلئے کثیر مال خرچ کر تا ہے اور خود اپنی تعریف کر کے لو گو ں کو اپنی طرف متوجہ کر تا ہے ، حالانکہ شرعاً یہ درست نہیں ہے ۔اس سےمتعلق شریعت کا حکم اور اصول یہ ہے کہ بعض استثنائی صورتوں کے علاوہ تمام حالات میں از خود کسی عہدے یا منصب کو اپنے لئے طلب کر نا جائز نہیں ؛اس لئے شریعت کی تعلیمات کی روشنی میں اور اسلامی نقطہ نظر سے ایسی غلطیوں کی اصلاح کی ضرورت ہے ۔(فتاویٰ عثمانی ،مفتی محمدتقی عثمانی حفظہ اللہ (3/507)کتاب الامارۃ والسیاسۃ،ط:معارف القران کراچی۔اسلام اور سیاسی نظریات(ص: 203)) انتخابات ميں امیدواری کامتبادل طریقہ ،ط:معارف القرآن کراچی) اسی طرح اس نظام میں مرد و عورت ، بو ڑھا جوان ، پڑھا لکھا ان پڑھ ، سمجھ دار نا سمجھ ہر ایک کا ووٹ برابر ہے، حالانکہ یہ ایک شہادت ہے ، اس لئے ووٹ کا حق صرف انہی لو گوں کو ہو نا چاہئے جو رائے اور شہادت دینے کے شرعاً اہل ہوں۔ (احسن الفتاویٰ،مفتی رشیداحمدصاحب ؒکتاب الجہاد،رسائل:رفع النقاب عن وجہ الانتخاب(6/141)ط:اشاعتِ اسلام)
خلاصہ یہ ہے مروّجہ نظام میں کچھ تبدیلیاں کر کے اس کو اسلامی اصولوں پر استوار کیا جاسکتا ہے ۔ اربابِ اقتدار پر لازم ہے کہ وہ علماء سے دریافت کر کے اس نظام کی اصلاح کریں۔(تفصیل کے لئے دیکھیے ، اسلام اور سیاسی نظریات، اسلام کا سیاسی نظام )۔
نمبر۲۔ووٹ کی شرعی حیثیت شہادت(گواہی دینے ) کی ہے ۔ یعنی ووٹر جس شخص کے حق میں ووٹ دے رہا ہو تا ہے ،گویا اس کے حق میں گواہی دے رہا ہو تا ہے کہ اس میں فلاں کا م کی قابلیت ،لیاقت اور اہلیت ہے اور یہ شخص ملک و ملت کے حقوق میں دیانت دار اور امانت دار ہے۔ اب اگر واقعۃ ً اس شخص میں وہ صفات نہیں ہیں، جن کی وہ گواہی دے رہا ہے تو یہ جھوٹی گواہی ہے اور آخرت کے عذاب کو مول لینا ہے ۔ جھوٹی گواہی بہت بڑا گناہ ہے ، جس کے بارے قرآن و حدیث میں سخت وعیدیں وارد ہو ئی ہیں۔
واضح رہے کہ جس طرح جھوٹی گواہی دینا حرام ہے اسی طرح گواہی کو چھپانا بھی حرام ہے ۔ اوراس معاملہ میں کسی قسم کی بلاوجہ سستی کر نے یا غفلت برتنے کی گنجائش نہیں۔بلکہ ایسے موقع پرحدیث میں گواہی بلامطالبہ دینے کا حکم آیا ہے ،جبکہ یہ دن بھی آپ سے اسی چیز کا تقاضا کررہا ہے ۔اس لئے یہ ہرفردکا شرعی ، قومی ، ملی اور اخلاقی فريضہ ہے کہ وہ اس کو اتنا ہی اہمیت ،توجہ اور دیانت داری کے ساتھ استعمال کرے جیساکہ فی الواقع وہ مستحق ہے ۔
لہٰذا ہم کو چاہئے انتخابات میں ووٹ دینے میں بلا وجہ سستی اور کاہلی کا مظاہر ہ ہر گز نہ کر یں اور اپنے ضمیر سے پوچھ کر ووٹ کے ذریعہ مذکورہ بالا صفات کے حامل شخص کی حمایت کریں یا أَهْوَنُ الْبَلِیَّتَیْنِ(دو مصیبتوں میں سے آسان اور ہلکی مصیبت کو چنتے ہو ئے ) ایسے شخص کے حق میں ووٹ ڈالیں جس کی حمایت کر نے میں ملک و ملت کا مفاد زیادہ ہواور اس میں شر ، ظلم ،اسلام و شریعت سے دوری اورارتکاب نواہی و غیرہ جیسی صفات کم سے کم ہوں۔
نیز اپنے ذاتی مفاد کے خاطر ،ذاتی تعلقات کی بنا ء پر یا چند پیسوں کے عوض نااہل اور غلط شخص کے حق میں ووٹ دینا ازروئے قرآن و سنت جھوٹی گواہی کے حکم میں ہے ،جو گناہ کبیرہ اور وبالِ دنیا و آخرت ہے ۔اس لئے ایسا کر نا بھی حرام ہے ۔(جواہر الفقہ،مفتی محمدشفیع صاحب ؒ(5/533) انتخابات میں ووٹ،ط: دارالعلوم کراچی،فقہی مقالات مفتی محمدتقی عثمانی(2/292) انتخابات میں ووٹ کی اسلامی حیثیت میمن اسلامک پبلشرز)فقط
     قال الله تعالی
وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ [البقرة: 283]
وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [الأنعام: 152]
فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ[الحج: 30]۔
 سنن ابن ماجه،أبوعبدالله محمدبن يزيد(م: 273هـ)(2/ 794)دارإحياء الكتب العربية
  عن خريم بن فاتك الأسدي، قال: صلى النبي صلى الله عليه وسلم الصبح، فلما انصرف قام قائما، فقال: «عدلت شهادة الزور بالإشراك بالله» ثلاث مرات، ثم تلا هذه الآية (واجتنبوا قول الزور حنفاء لله غير مشركين به) [الحج: 31]۔
 المعجم الأوسط،أبو القاسم سليمان بن أحمد،الطبراني(م: 360هـ)(4/ 270) دارالحرمين
 عن أبي بردة، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من كتم شهادة إذا دعي إليها كان كمن شهد بالزور»۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس