بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

وقت اجارہ میں ذاتی کام کرنا

سوال

ایک استاد طلباء کرام کا مطالعہ و تکرار وغیرہ کی نگرانی کرتا ہے، جس کی مدرسہ کی طرف سے اجرت ملتی ہے۔ کیا ان اوقات میں استاد اپنا مطالعہ کر سکتا ہے یا پروف ریڈنگ کر سکتا ہے اور پروف ریڈنگ کرنے کی بھی اجرت ملتی ہو۔ مطالعہ یا پروف ریڈنگ سے نگرانی میں کوئی خلل واقع نہیں ہو تا نیز مدرسہ کی طرف سے بھی کوئی روک تھام نہیں ہے بلکہ دلالۂ اجازت ہے۔ کیا ان اوقات میں مطالعہ یا پروف ریڈنگ کرنا جائز ہو گا؟ اسی طرح ان اوقات میں تصنیف و تالیف میں مصروف ہونے کا کیا حکم ہو گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل اجیر خاص کہلائے گا۔ اور اجیر خاص کا وقت اجارہ میں کسی دوسرے مستاجر کے لیے کام کرنا درست نہیں ہے۔ لہذا سائل کے لیے وقت اجارہ میں با معاوضہ اپنا ذاتی کام کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر مدرسہ کے انتظامیہ کی اجازت سے ان اوقات میں اپنا ذاتی کام کرتا ہے اور مدرسہ کے کام میں خلل بھی واقع نہیں ہوتا، تو اس کی اجازت ہے۔

رد المحتار (6/ 69)سعيد:

(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة. . . .وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل.

رد المحتار (6/ 70) سعيد:

(قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى.

الموسوعة الفقهية الكويتية (1/ 289)وزارة  الاوقاف والشئون الاسلامية:

ويجب على الأجير الخاص أن يقوم بالعمل في الوقت المحدد له أو المتعارف عليه. ولا يمنع هذا من أدائه المفروض عليه من صلاة وصوم، بدون إذن المستأجر. وقيل: إن له أن يؤدي السنة أيضا، وأنه لا يمنع من صلاة الجمعة والعيدين، دون أن ينقص المستأجر من أجره شيئا إن كان المسجد قريبا۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس