مفتیانِ کرام سے مندرجہ ذیل حدیث کی تحقیق اور اس سے متعلق سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
عن عائشة قالت: لقد نزلت آية الرجم ورضاعة الكبير عشرا، ولقد كان في صحيفة تحت سريري، فلما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم اشتغلنا بموته، فدخل الداجن فأكلها
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے ،انہوں نے فرمایا :رجم کی آیت اور بڑی عمر کے لڑکے کو دس بار دودھ پلانے کے مسئلہ پر مشتمل آیت نازل ہوئی تھی ۔یہ دونوں آیتیں کاغذ پر لکھی ہوئی میرے بستر پر پڑی تھیں۔ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو ہم آپ ﷺ کے غسل و کفن وغیرہ میں مشغول ہو گئے ،ایک بکری آئی اور وہ کاغذ کھا گئی ۔
اب اس حدیث سے متعلق سوالات مندرجہ ذیل ہیں
نمبر۱۔کیا یہ حدیث ثابت ہے؟نمبر۲۔ اگر ثابت ہے تو اس سے قرآن کی حفاظت پر سوال اٹھتا ہے کہ قرآن کی آیات بکری کھا گئی اور وہ آیات اب قرآن میں نہیں ،لہذا جو قرآن ہم تک پہنچا وہ مکمل نہیں۔نمبر۳۔اس حدیث میں بڑی عمر کے لڑکے کو دودھ پلانے سے متعلق کہا گیا ہے تو کیا بڑی عمر کے لڑکے کو دودھ پلانے سے حرمت رضاعت ثابت ہو جائے گی ؟
نمبر۱۔مذکورہ حدیث سنن ابنِ ماجہ ،دار قطنی اور معرفۃ السنن والاٰ ثار وغیرہ کتبِ احادیث میں منقول ہے اور یہ حدیث ثابت ہے۔
نمبر۲۔اس حدیث کو لے کر یہ اعتراض کرنا کہ بکری نے قرآن کی آیات کھا لی جس کی وجہ سے قرآن ہم تک مکمل نہیں پہونچا ،درست نہیں؛کیونکہ قرآن کے نزول سے لے کر جمعِ قرآن تک اللہ تعالیٰ نے قرآن کو صرف کتابت کے ذریعے محفوظ نہیں کیا بلکہ اس کتاب کی خصوصیات میں سے ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو ابتداءً صحابہ کرام کے محفوظ حافظوں میں محفوظ کیا اور صحابہ کی ایک بڑی جماعت آپ ﷺ کے وصال کے وقت حافظِ قرآن تھی ،نیز آپ ﷺ نے نزول کے ساتھ ساتھ ہی قرآن کی کتابت کا بھی اہتمام کیا کہ بعض صحابہ کرام کو آپ ﷺ باقاعدہ بلا کر نازل ہونے والی آیات ترتیب کے ساتھ لکھواتے اور خود اللہ تعالیٰ نے بھی ” { إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ”کہہ کر اس کی حفاظت کا وعدہ کیا ،لہذا اس حدیث کو لے کر یہ اعتراض کرنا کہ قرآن کی دو آیات بکری نے کھا لی تھیں بےمعنی ٰ ہے، کیونکہ قرآن صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس محفوظ نہیں تھا اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے یہ آیات ضائع ہو بھی گئی تھی تو دیگر صحابہ کرام کے پاس وہ آیات بہر حال موجود تھیں ۔اسی طرح ناسخ و منسوخ قرآن کا خاصہ رہا ہے اللہ تعالی ٰ نے کچھ احکام نازل فرما کرایک وقت تک ان کو برقرار رکھا اور پھر انسانی مصلحت کی خاطر بعد میں یا تو ان آیات کو احکام سمیت منسوخ کر دیا یا صر ف آیات کو منسوخ فرما کر ان کے احکام کو باقی رکھا،اس حدیث میں جن آیات کا تذکرہ ہے ان کا تلاوت کے طور پر اس نسخہ میں شامل نہ ہونا اسی قبیل سے ہے،اس تمہید کے بعدسوال میں ذکر کردہ اشکالات کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں
مذکورہ حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رضاعت کبیر والی آیت رجم والی آیت کے ساتھ ایک صحیفے پر لکھی ہوئی تھی اور رجم والی آیت قطعی طور پر منسوخ التلاوۃ ہے تو رضاعت کبیر والی آیت کا منسوخ التلاوۃ ہونا یقینی ہے،لہذا منسوخ التلاوۃ آیات کو لے کر قرآن کی جامعیت پر اعتراض کرنا قطعاً درست نہیں ، نیز یہ آیات حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس محفوظ تھیں اور دین کی نشر و اشاعت میں ان کا مقام و مر تبہ کسی پر پوشیدہ نہیں اور دین پر عمل کرنے اور کروانے کے جذبے میں ان کی ایک خاص شان تھی ،نیز آپ کے والد سب سے پہلے جامعِ قرآن بھی تھے ،ان سب فضائل و مناقب کے بعد آپ کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ آپ نے ان آیات کو قرآن میں داخل کرنے سے تامل کیا اور ان آیات کو قرآن میں داخل نہیں کیا یہ خیال بغض و عناد پر مبنی ہے اور عقلاً اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔
نمبر۳۔اس حدیث سے بڑے لڑکے کو جو دودھ پلانے سے حرمت ِ رضاعت کا ثبوت ہے اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے
سوال میں مذکور حدیث مجمل ہے ، اس لیے کہ اس حدیث میں رضاعتِ کبیر سے متعلق آیتِ قرآن کا ذکر ہے اور وہ آیتِ قرآنی احکام ِ نسخ کے تحت منسوخ التلاوۃ والحکم ہے ،لہذا اس حدیث پاک سے تورضاعتِ کبیر پر استدلال درست نہیں ،البتہ مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا ہی سے اس طرح کی ایک تفصیلی حدیث منقول ہے ، جس میں یہ ذکر ہے کہ حضرت سہلۃ بنتِ سہیل رضی اللہ عنھا نے اپنے شوہرحضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے بڑی عمر کے غلام “حضرت سالم “کو حضورﷺ کے کہنے پر برتن میں نکال کر دودھ پلایا تھا اور آپ علیہ السلام نے ان دونوں کے درمیان رضاعت کو ثابت بھی کر دیا تھا ، اس حدیث سے بڑی عمر کے لڑکے کو دودھ پلانے سے رضاعت کا ثبوت سمجھ میں آتا ہے ؛لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ اجازت حضرت سہلہ اور حضرت سالم رضی اللہ عنھما کے ساتھ خاص ہے،عمومی نہیں ۔جب کہ جمہور فقہاء و محدثین کا مذہب یہ ہے کہ رضاعتِ کبیر کی صورت میں حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوتی اور ان حضرات کا مستدل قرآن کی وہ آیات اور احادیث ہیں جن میں حرمتِ رضاعت کو دو سال کے اندر ثابت مانا ہے ،قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” {وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ } [البقرة: 233] کہ مائیں اپنی اولاد کو مکمل دو سال دودھ پلائیں ،اسی طرح حدیث میں آپﷺ نے فرمایا “لا رضاع الا ما کان فی الحولین”اور بھی اس مضمون کی احادیث و آثار ہیں جو حوالہ جات میں ذکر کیے جائیں گے ۔
:کما قال اللہ
{إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ } [الحجر: 9]
:قال اللہ
{وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ} [البقرة: 233]
سنن ابن ماجه (1/ 625) دار إحياء الكتب العربية
عن عمرة، عن عائشة، وعن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، عن عائشة، قالت: «لقد نزلت آية الرجم، ورضاعة الكبير عشرا، ولقد كان في صحيفة تحت سريري، فلما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم وتشاغلنا بموته، دخل داجن فأكلها»۔
سنن الدارقطني (5/ 316) مؤسسة الرسالة
عن عمرة , عن عائشة. وعن عبد الرحمن بن القاسم , عن أبيه , عن عائشة , قالت: «لقد أنزلت آية الرجم ورضاعة الكبير عشرا , فلقد كانت في صحيفة تحت سريري فلما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم اشتغلنا بموته فدخل الداجن فأكلها»۔
معرفة السنن والآثار (11/ 261) جامعة الدراسات الإسلامية
عن عمرة، عن عائشة، وعن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، عن عائشة قالت: «لقد نزلت آية الرجم ورضاعة الكبير عشرا، ولقد كان في صحيفة تحت سريري، فلما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم اشتغلنا بموته، فدخل الداجن فأكلها»۔
صحيح مسلم (2/ 1076) دار إحياء التراث العربي
عن عائشة، أن سالما، مولى أبي حذيفة كان مع أبي حذيفة وأهله في بيتهم، فأتت – تعني ابنة سهيل – النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: إن سالما قد بلغ ما يبلغ الرجال. وعقل ما عقلوا. وإنه يدخل علينا. وإني أظن أن في نفس أبي حذيفة من ذلك شيئا. فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم «أرضعيه تحرمي عليه، ويذهب الذي في نفس أبي حذيفة» فرجعت فقالت: إني قد أرضعته. فذهب الذي في نفس أبي حذيفة۔
موطأ مالك (4/ 870) مؤسسة زايد بن سلطان
مالك، عن نافع؛ أن عبد الله بن عمر، كان يقول: لا رضاعة إلا لمن أرضع في الصغر. ولا رضاعة لكبير۔
موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني (ص: 212) المكتبة العلمية
عن سعيد بن المسيب، أنه سمعه يقول: لا رضاعة إلا في المهد، ولا رضاعة إلا ما أنبت اللحم والدم، قال محمد: لا يحرم الرضاع إلا ما كان في الحولين، فما كان فيها من الرضاع۔
سنن سعيد بن منصور (1/ 281) الدار السلفية
عن إبراهيم، أن رجلا أوجرته امرأته أو سعطته من لبنها، فأتوا أبا موسى الأشعري، فقال: «حرمت عليه» . ثم أتوا عبد الله بن مسعود، فقال: لا رضاع بعد الحولين، إنما الرضاع ما أنبت اللحم وأنشز العظم. قال أبو موسى: لا تسألوني – أو لا ينبغي أن تسألوني – عن شيء ما دام هذا الحبر بينكم۔
تکملۃ فتح الملھم(1/45)دارالعلوم
واعترض علیہ بعض المستشرقین والملاحدۃ بما اخرجہ ابن ماجہ فی باب رضاع الکبیر عن عائشۃ۔۔۔قالوا :فدل ھذا الحدیث علی انہ لم یکن سبب عدم کتابتھا فی المصحف الا ان اکلتھا الشاۃ۔۔۔والجواب علی تقدیر صحۃ الحدیث ۔۔۔۔یدل علی انھا قرنت آیۃ الرضآع بآیۃ الرجم وھی منسوخۃ قطعاً۔۔۔فلا یقدح بھذا الحدیث فی القرآن الکریم الا من اعمتہ الشحناء واصمہ العناد ،وجعلتہ العصبیۃ لا یعرف ما یقول۔
تکملۃ فتح الملھم(1/46)
قال العبد الضعیف عفا اللہ عنہ :۔۔۔ کان یحلب فی مسعط او اناء قدر رضعۃ ،فیشربہ سالم کل یوم خسۃ ۔
تکملۃ فتح الملھم(1/47)
اما جمھور من سواھم ،فاجمعو ا علی انہ لا یحرم بعد مدۃ الرضاع ۔۔۔ العبد الضعیف عفا اللہ عنہ :التقدیر بالحولین مما لا ید ررک بالقیاس فھذہ الاٰثار الموقوفۃ فی قوۃ المرفوع ، الظاھر انہ لم یقل بہ ھؤلاء الصحابۃ الا وعندھم فی ذلک عھد من النبی ﷺ۔۔
تکملۃ فتح الملھم(1/48)
اما قصۃ ارضاع سالم فی حدیث الباب۔۔۔۔احسنھا ان ذلک خصوصیۃ لہ۔۔۔ان صح ذلک عنھا ۔۔
الإتقان في علوم القرآن (1/ 202) الهيئة المصرية العامة للكتاب
وقد كان القرآن كتب كله في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم لكن غير مجموع في موضع واحد ولا مرتب السور۔
الإتقان في علوم القرآن (1/ 244)
وفي الصحيح في غزوة بئر معونة أن الذين قتلوا بها من الصحابة كان يقال لهم القراء وكانوا سبعين رجلا۔
معارف القرآن،مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ (1/283تا 286):۔علوم القرآن الشیخ محمد تقی العثمانی (179)