کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام کہ اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا بیٹا نافرمان ہے ،میری کوئی بات نہیں مانتا اور نہ ہی گھر کا کوئی کام کاج وغیرہ کرتا ہے اور کوئی نوکری وغیرہ بھی نہیں کرتا کہ جس سے اپنا اور اپنی بیوی کا خرچ وغیرہ اٹھائے، اس کے اور اس کے بیوی کے تمام اخراجات میرے ذمہ ہیں اب اس کی نافرمانیوں کو دیکھ کر میں یہ چاہتا ہوں کہ اس کو گھر سے نکال دوں اور اس کا خرچ بند کر دوں یا اس کو گھر میں ہی الگ رکھ کر اس سے بات چیت بند کر دوں تاکہ اس کی نافرمانیوں کا میری دیگر اولاد پر اثر نہ پڑے ،نیز وہ اور اس کی بیوی یہ بھی چاہتے ہیں کہ میں انہیں اپنی جائیداد میں سے حصہ دے دوں تو کیا اس کو اس طرح مطالبہ کرنا جائز ہے؟جواب مرحمت فرما کر شکریہ کا موقع دیں ۔
قرآن و سنت کی روشنی میں والدین کے حقوق کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور ان کی ناراضگی اور ضامندی کو رب کی ناراضگی اور رضامندی کے لیے معیار قرار دیا گیا ہے اس لیے آپ کے بیٹے کو چاہیے کہ وہ آپ سے حسنِ سلوک اور اطاعت و فرمانبرداری والا معاملہ کرے اور نافرمانی اور بد سلوکی سے اجتناب کرے۔
آپ کے سوالات کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ : شرعاً والد پر اس کی صحت مند بالغ مذکراولاد کا نان و نفقہ لازم نہیں ، لہذا اگر آپ اپنے اس طرح کے بیٹے کو نان و نفقہ نہیں دیتے تو شرعاٍ اس میں کوئی حرج نہیں اسی طرح نافرمان اولاد کو اپنی تربیت کی طرف متوجہ کرنے اور فکر ِ معاش پر ابھارنے کے لیے گھر سے علیحدہ کرنے کی گنجائش ہے، البتہ اس کو گھر میں رکھ کر قطع تعلقی کی نیت سے بات چیت بند کرنا درست نہیں تاہم احسا س دلانے اور دیگر اولاد کی تربیت کی غرض سے بات چیت عارضی طور بند کی جا سکتی ہے لیکن اس سب کے باوجود آپ کے لیے مستحسن یہ ہےکہ اس کے حق میں دعا کریں اور جتنا ممکن ہو اس سے صلہ رحمی والا معاملہ کریں ۔
واضح رہے کہ آپ اپنی زندگی میں اپنی تمام جائیداد کے مالک ہیں ،لہذا آپ کی بہو ،بیٹے یا کسی اور وارث کے لیے جائز نہیں کہ وہ آپ سے آپ کی زندگی میں جائیداد میں حصہ کا مطالبہ کریں ۔
:كما قال الله تعالي
{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا(23) وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا (24)}[الإسراء: 23، 24]
{ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي} [الأحقاف: 15]
مفاتيح الغيب (28/ 20) دار إحياء التراث
[في قوله تعالى وأصلح لي في ذريتي] والمطلوب الثالث: من المطالب المذكورة في هذه الآية قوله تعالى: وأصلح لي في ذريتي لأن ذلك من أجل نعم الله على الوالد، كما قال إبراهيم عليه السلام: واجنبني وبني أن نعبد الأصنام [إبراهيم: 35]۔
صحيح البخاري (8/ 21) دار طوق النجاة
عن أنس بن مالك: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا تباغضوا، ولا تحاسدوا، ولا تدابروا، وكونوا عباد الله إخوانا، ولا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال»۔
عمدة القاري (22/ 137) دار إحياء التراث
قوله: (ولا يحل لمسلم) إلى آخره فيه التصريح بحرمة الهجران فوق ثلاثة أيام، وهذا فيمن لم يجن على الدين جناية، فأما من جنى عليه وعصى ربه فجاءت الرخصة في عقوبته بالهجران كالثلاثة المتخلفين عن غزوة تبوك فأمر الشارع بهجرانهم فبقوا خمسين ليلة حتى نزلت توبتهم
سنن الترمذي (3/ 374) دار الغرب الإسلامي
عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: رضى الرب في رضى الوالد، وسخط الرب في سخط الوالد۔
صحيح البخاري (4/ 14)
قال عبد الله بن مسعود رضي الله عنه: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت: يا رسول الله، أي العمل أفضل؟ قال: «الصلاة على ميقاتها»، قلت: ثم أي؟ قال: «ثم بر الوالدين»۔
الأدب المفرد بالتعليقات (ص: 305)
عن بكار بن عبد العزيز عن أبيه عن جده عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (كل ذنوب يؤخر الله منها ما شاء إلى يوم القيامة إلا البغي وعقوق الوالدين أو قطيعة الرحم يعجل لصاحبها في الدنيا قبل الموت)۔
الفتاوى الهندية (1/ 563) دار الفكر
ولا يجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزا عن الكسب لزمانة، أو مرض۔۔
البحر الرائق شرح (8/ 557) دار الكتاب الإسلامي
الإرث يثبت بعد موت المورث۔۔