میں نے اپنی والدہ کی زمین میں ان کی اجازت سے کھجوروں کے مخصوص اچھے درخت (دوڑے) لگائے ان کو لگانے میں کافی محنت و مشقت کی، وہاں پانی نہیں تھا، نلکے کی مدد سے وہاں پانی پہنچایا، اس کے بعد ان کی دیکھ بھال کی، والدہ سے ادب کی وجہ سے کبھی صراحتًا اس پر بات نہیں ہوئی کہ میں ان کا مالک ہوں، البتہ میرے دل میں یہی بات تھی کہ یہ درخت میرے ہیں، کیونکہ ان پر اخراجات میں نے خود کیے تھے ، اس کے بعد والدہ صاحبہ فوت ہو گئی۔ جب زمین تقسیم ہوئی تو وہ جگہ دوسرے بھائی کے حصہ میں آئی، انہوں نے کسی مفتی صاحب سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جس کی زمین میں درخت آئے ہیں یہ اسی کے ہیں۔ آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ شرعی اعتبار سے یہ درخت میرے ہوں گے یا جس بھائی کے حصے میں زمین آئی ہے اس کی ہو گی۔ نیز اس وقت دوسرے بھائی والدین کے تابع تھے اور بھائی والدین کی حسب توفیق کا شتکاری وغیرہ میں مدد بھی کرتے تھے اس کا کوئی بدل وغیرہ نہیں لیا جاتا تھا کیونکہ اکھٹے رہتے تھے ، باقی بھائی بھی اس بیان کی تصدیق کرتے ہیں۔
مذکورہ صورت میں اگر آپ نے والدہ کی اجازت سے اپنے لیے درخت لگائے تھے اور بھائی بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں تو یہ درخت آپ کی ملک ہیں لیکن اگر بھائیوں کا دعوی یہ ہو کہ آپ کا درخت لگانا والدہ کے ساتھ ان کی کاشتکاری میں تعاون تھا تو اس صورت میں یہ شبہ پیدا ہو گیا ہے کہ درخت لگانے کا عمل والدہ کے ساتھ کاشتکاری میں تعاون تھا یا والدہ نے آپ کو درخت لگانے کی اجازت دی تھی، ایسی کیفیت میں بہتر یہ ہے کہ تمام ورثاء باہمی رضامندی سے صلح کی کوئی جائز صورت اختیار کر لیں۔
الفتاوى الهندية (٣٧٠/٤) دار الفكر
إذا استعار من آخر أرضا ليبني فيها أو يغرس فيها ثم بدا اللمالك أن يخرجه فله ذلك سواء كانت العارية مطلقة أو موقتة غير أنها إن كانت مطلقة له أن يجبر المستعير على قلع الغرس ونقض البناء، وإذا قلع ونقض لا يضمن المعير شيئا من قيمة العرس والبناء، كذا في البدائع . فإن كانت الأرض بحال تنقص بذلك إن رضي المعير بالنقص قلعهما، وإن طلب المستعير أن يضمن المعير قيمة البناء والغرس مقلو عا فإنه لا يجبر على ذلك ويكلفه القلع ، وإن لم يرض أن يسترد الأرض ناقصة ضمن له قيمة البناء والغرس مقلوعا غير ثابت ولا يلتفت إلى قول المستعير، كذا في المضمرات۔
مجمع الانهر في ملتقى الابحر كتاب الاشربه (٤٣٣/٣) كویتۃ
لقوله عليه الصلاة والسلام : (( الصلح جائز فيما بين المسلمين الاصلحا أحل حراما و حرم حلالا ))
شرح ملتقى الأبحر (٤٢٣/٣) كویتۃ
للقاضي تاخير الحكم إلا فى ثلاث : لريبة ولرجاء صلح الأقارب …۔