میں کا فی عر صہ سے کاروبار کرر ہا ہوں اور میری زکوۃ کی صاحب نصاب بننے کی تاریخ 15 جماد ی الثانی ہے ۔ اس سال 1438 میں ایک کاروبار ی ڈیل کے نتیجہ میں ،میں نے ایک دوسری کمپنی کو ایک ٹرک 72 لاکھ کا ادھا ر میں بیچا ہے جس کی 36 ماہ میں 2لاکھ فی ماہ قیمت بذریعہ چیک ہرانگریزی ماہ کی 10 تاریخ کو وصول کی جائے گی ۔ اس سال 1438میں 15 جمادی الثانی کو میں بذریعہ چیک 12لاکھ وصول کر چکاہو ں اور بقایا 60لاکھ وصول کرنے ہیں ۔میں نے اپنے کاروبارکے دیگر اثاثہ جات کا تخمینہ لگاکر زکوۃ اداکردی ہے اس ٹرک کی بقایا ادائیگی کی زکوۃ کا حساب لگوانا مقصود ہے جس کی وصولی کی تر تیب درج ہے ۔
نمبر۱۔ 1438 بمطابق 15 مارچ 2017 کو بقایا وصولی کی رقم 60 لاکھ (آج تک 12 لاکھ کی رقم وصول کی جا چکی ہے )
نمبر۲۔ 1439 بمطابق 5مارچ 2018 کو بقایا وصولی کی رقم 38 لاکھ (اس سال میں 22لاکھ کی رقم وصول ہو چکی ہو گی )
نمبر۳۔ 1440 بمطابق 23فروری 2019کو بقایا وصولی کی رقم ۔14لاکھ (اس سال میں 24 لاکھ کی رقم وصول ہو چکی ہو گی)
نمبر1۔اب پو چھنایہ ہے کہ اگر میں ہر سال یاہر ماہ کی وصولی کے مطابق زکوۃ اداکرنا چاہو ں تو کیسے اور کتنی رقم ہر سال یا ہر ماہ کی زکوۃ کی بنتی ہے ؟
نمبر2۔اگر میں اکٹھی زکوۃ اداکرنا چاہوں تو اس کی کل کتنی مقدار بنتی ہے ؟
نمبر1۔2 ۔مذکورہ صورت میں کل واجب الوصول رقم پر زکوۃ کی ادائیگی ہرسال لازم ہوگی ،البتہ اس کی ادائیگی دو طرح کی جاسکتی ہے ۔
نمبر(1)زکوۃ کی تاریخ کو جتنی بھی واجب الوصول رقم موجود ہو اس پر اسی وقت پوری زکوۃ اداکردی جائے یعنی صورت مسئولہ میں 2017میں 60لاکھ ،2018میں 38لاکھ اور 2019 میں 14 لاکھ( جوکہ وصول ہونے تھے)کی زکوۃ بھی اداکی جائے ۔
نمبر(2)دوسرا طریقہ یہ ہےکہ جتنی رقم وصول ہوتی جائے اس پر گذشتہ تمام سالوں کی زکوۃ اداکی جائے مثلاً صورت مسئولہ میں کل ساٹھ لاکھ پر 2017میں کچھ بھی زکوۃ ادانہ کی جائے 2018میں 22لاکھ روپے ،2019 میں 48 لاکھ روپے اور 2020میں 42لاکھ روپے کی زکوۃ اداکی جائے ۔اس طرح دونوں طریقوں سے آپ کو کل ایک کروڑ 12لاکھ کی زکوۃ اداکرناہوگی ۔
مجمع الأنهر ،شيخي زاده عبد الرحمن بن محمد(م:1078هـ) (1/193،195)دارإحياء التراث العربي
ثم النصاب إنما تجب فيه الزكاة إذا تحقق فيه أوصاف أربعة أشار إلى الأول بقوله (حولي) وهو أن يتم الحول عليه وهو في ملكه لقوله – عليه الصلاة والسلام – «لا زكاة في مال حتى يحول عليه الحول» سمي حولا لأن الأحوال تحول فيه…. فالدين القوي هو الذي ملكه بدلا عما هو مال الزكاة كالدراهم والدنانير وأموال التجارة وكذا غلة مال التجارة من العبيد والدور ونحوها والحكم فيه عند الإمام أنه إذا كان نصابا وتم الحول عليه تجب الزكاة لكن لا يخاطب بالأداء ما لم يقبض أربعين درهما فإذا قبض أربعين درهما زكى درهما فإن قبض أقل من ذلك لا
اللباب فی شرح الکتاب،عبد الغني بن طالب الغنيمي الدمشقي (م:1298ھ) (1/148) المكتبة العلمية
الزكاة واجبةٌ في عروض التجارة كائنةً ما كانت إذا بلغت قيمتها نصاباً من الذهب أو الورق، يقومها بما هو أنفع للفقراء….(الزكاة واجبة في عروض التجارة، كائنة ما كانت) : أي كائنة أي شيء، يعني سواء كانت من جنس ما تجب فيه الزكاة كالسوائم، أو غيرها كالثياب (إذا بلغت قيمتها نصاباً من الورق أو الذهب، يقومها) صاحبها (بما هو أنفع للفقراء۔
الفتاوی الہندیة،لجنة العلماء برئاسة نظام الدين البلخي(1/175) دارالفكر
وقوي، وهو ما يجب بدلا عن سلع التجارة إذا قبض أربعين زكى لما مضى كذا في الزاهدي. (ومنها حولان الحول على المال) العبرة في الزكاة للحول القمري كذا في القنية،۔۔۔۔۔وكما يجوز التعجيل بعد ملك نصاب واحد عن نصاب واحد يجوز عن نصب كثيرة كذا في فتاوى قاضي خان. فلو كان عنده مائتا درهم فعجل زكاة ألف فإن استفاد مالا أو ربح صار ألفا ثم تم الحول وعنده ألف فإنه يجوز التعجيل وسقط عنه زكاة الألف،۔۔۔ويجوز التعجيل لأكثر من سنة لوجود السبب كذا في الهداية