بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

نکاح کے وقت (متبنی )لڑکی کی نسبت کس کی طرف کی جائے ؟

سوال

زید کی بیٹی تھی زینب اس نے لے پالک کے طور پر اپنے بھائی عمر کو دیدی وہ لڑکی جب بڑی ہوئی اور نکاح کی عمر کوپہنچی تو نکاح کے ایجاب وقبول میں اس کی نسبت عمر کی طرف کی گئی اور نکاح خواں نے دولہا کی جانب مخاطب ہوکر یوں کہا کہ: میں نے عمر کی بیٹی زینب بعوض حق مہر آپ کے نکاح میں دی ہے کیا آپ نے قبول کی ، دولہا نے کہا ، میں نے قبول کی اور حاضرین کو معلوم تھا کہ یہ زید کی اصلاً بیٹی ہے اور عمر کی لے پالک ۔اب پو چھنایہ ہے کہ زینب کی نسبت نکاح میں عمر کی طرف کرنے سے نکاح درست ہے یا نہیں؟ جبکہ مقصود وہ زینب تھی جو زید کی بیٹی تھی اور دولہا نے اسی کے ساتھ نکاح کی رضامندی ظاہر کی ۔

جواب

صورت مسؤلہ میں زینب کو عمر کی بیٹی قراردینابلاشبہ گنا ہ کبیرہ اور حرام ہے۔واضح رہےکہ قرآن کریم میں ہےکہ لے پالک کو حقیقی والد کے نام کےساتھ پکارو،اس لئے یہ ضروری ہے کہ آئندہ زینب کو زید ہی کی بیٹی کہاجائے ۔تاہم نکاح کے وقت حاضرین اور گواہوں کو معلوم تھا کہ زید کی بیٹی زینب کانکاح ہورہاہے اس لئے یہ نکاح منعقد ہوگیا ۔
الدرالمختار،العلامةعلاءالدين الحصكفي(م:1088هـ)(3/15)سعید
ولا المنكوحة مجهولة، ولا يشترط العلم بمعنى الإيجاب والقبول فيما يستوي فيه الجد والهزل
ردالمحتار،العلامة ابن عابدين الشامي(م:1252هـ)(3/15)سعید
(قوله: ولا المنكوحة مجهولة) فلو زوج بنته منه وله بنتان لا يصح إلا إذا كانت إحداهما متزوجة، فينصرف إلى الفارغة كما في البزازية نهر، وفي معناه ما إذا كانت إحداهما محرمة عليه فليراجع رحمتي وإطلاق قوله لا يصح دال على عدم الصحة، ولو جرت مقدمات الخطبة على واحدة منهما بعينها لتتميز المنكوحة عند الشهود فإنه لا بد منه رملي. قلت: وظاهره أنها لو جرت المقدمات على معينة وتميزت عند الشهود أيضا يصح العقد وهي واقعة الفتوى؛ لأن المقصود نفي الجهالة، وذلك حاصل بتعينها عند العاقدين والشهود
 الدرالمختار،علاء الدين محمد بن علي الحصكفي(م:1088ھ) (3/26)سعید
(غلط وكيلها بالنكاح في اسم أبيها بغير حضورها لم يصح) للجهالة وكذا لو غلط في اسم بنته إلا إذا كانت حاضرة وأشار إليها فيصح؛ ولو له بنتان أراد تزويج الكبرى فغلط فسماها باسم الصغرى صح للصغرى خانية
ردالمحتار،ابن عابدين،محمد أمين بن عمرعابدين الدمشقي(م:1252ھ)(3/26)سعید
 (قوله: لم يصح) لأن الغائبة يشترط ذكر اسمها واسم أبيها وجدها، وتقدم أنه إذا عرفها الشهود يكفي ذكر اسمها فقط خلافا لابن الفضل وعند الخصاف يكفي مطلقا والظاهر أنه في مسألتنا لا يصح عند الكل؛ لأن ذكر الاسم وحده لا يصرفها عن المراد إلى غيره، بخلاف ذكر الاسم منسوبا إلى أب آخر، فإن فاطمة بنت أحمد لا تصدق على فاطمة بنت محمد تأمل، وكذا يقال فيما لو غلط في اسمها

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس