بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

نماز میں امام کا محراب میں کھڑا ہونا مکروہ کیوں ہے ؟

سوال

کتاب الصلوۃ کی فصل مکروہات میں صاحب ہدایہ نے مسئلہ ذکر کیا ہے جس کی عبارت یہ ہے کہ “ولا باس بان یکون مقام الإمام في المسجد وجوده في الطاق الخ” اس عبارت کی شرح کرتے ہوئے صاحب اشرف الہدایہ تحریر فرماتے ہیں کہ” بعض حضرات نے کراہت کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ امام اگر تنہا محراب میں کھڑا ہو یعنی اس کے قدم محراب کے اندر ہوں تو امام کے دائیں بائیں کھڑے ہونے والے مقتدیوں پر اس کا حال مخفی ہو گا چنانچہ اگر محراب ایسے طور پر ہو کہ امام کا حال مخفی نہ ہو تو امام کا تنہا محراب میں کھڑا ہونا مکروہ نہیں ہےیہی قول امام ابو جعفر طحاوی کا ہے” (اشرف الہدایہ2/153) مجھے اس پر جو تر دد ہے وہ یہ کہ آج کل اکثر مساجد کے محراب اس طور پر بنے ہوئے ہیں کہ دائیں بائیں کے مقتدی بآسانی امام کی حرکت کو دیکھ سکتے ہیں لہذا فی زماننا محراب میں کھڑے ہو کر نماز پڑھانا مکروہ نہیں ہونا چاہیے اور اس مسئلہ کے بارے میں جو دو قول صاحب اشرف الہدایہ نے ذکر کیے ہے ان میں سے راجح قول کون سا ہوگا۔

جواب

مفتٰی بہ قول کے مطابق امام کے لیے بلا ضرورت محراب میں کھڑا ہونا یعنی اس کے پاؤں کا محراب کے اندر ہونا مطلقاً مکروہ ہے اگر چہ مقتدیوں پر اس کا حال مخفی نہ ہو کیونکہ اس کر اہت کی راجح وجہ وہ ہے جو صاحب ہدایہ رحمہ اللہ نے بیان فرمائی کہ اس میں اہل کتاب کے طرز کے ساتھ تشبہ لازم آتا ہے۔ سوال میں ذکر کردہ وجہ مرجوح   ہے ۔یہی وجہ ہے کہ صاحب اشرف الہدایہ نے صاحب ہدایہ رحمہ اللہ کی بیان کردہ وجہ کی تشریح کرنے کے بعد فرمایا کہ : ” اس میں کراہت کی وجہ مشابہت ہی ہے، پس جس صورت میں مشابہت پائی جائے گی تو  کراہت ہوگی اور جس صورت میں مشابہت نہ ہو اس میں کراہت نہ ہوگی”البتہ یہاں کراہت تنزیہی مراد ہے۔ نیز ضرورت مثلاً مسجد کی تنگی وغیرہ کی صورت میں یہ کراہت ختم ہو جائے گی۔
الجامع الصغير،محمد بن الحسن الشیبانی(م:189)(ص: 86)بیروت
… محمد عن يعقوب عن أبي حنيفة لا بأس أن يكون مقام الإمام في المسجد وسجوده في الطاق ويكره أن يقوم في الطاق۔
الدر المختار،علاء الدين الحصكفي(م:1088ه)(1/ 645)ايچ۔ايم۔سعيد
(وقيام الإمام في المحراب لا سجوده فيه) وقدماه خارجة لأن العبرة للقدم (مطلقا) وإن لم يتشبه حال الإمام إن علل بالتشبه وإن بالاشتباه ولا اشتباه فلا اشتباه في نفي الكراهة۔
رد المحتار،ابن عابدين الشامي(م:1252ه)(1/645)ايچ۔ايم۔سعيد
وحاصله أنه صرح محمد في الجامع الصغير بالكراهة ولم يفصل؛ فاختلف المشايخ في سببها، فقيل كونه يصير ممتازا عنهم في المكان لأن المحراب في معنى بيت آخر وذلك صنيع أهل الكتاب، واقتصر عليه في الهدايةواختاره الإمام السرخسي وقال إنه الأوجه، وقيل اشتباه حاله على من في يمينه ويساره، فعلى الأول يكره مطلقا، وعلى الثاني لا يكره عند عدم الاشتباه، وأيد الثاني في الفتح بأن امتياز الإمام في المكان مطلوب، وتقدمه واجب وغايته اتفاق الملتين في ذلك، وارتضاه في الحلية وأيده، لكن نازعه في البحر بأن مقتضى ظاهر الرواية الكراهة مطلقا  . . . .قلت: أي لأن المحراب إنما بني علامة لمحل قيام الإمام ليكون قيامه وسط الصف كما هو السنة، لا لأن يقوم في داخله، فهو وإن كان من بقاع المسجد لكن أشبه مكانا آخر فأورث الكراهة، ولا يخفى حسن هذا الكلام فافهم۔
البحر الرائق،ابن نجیم المصری(م:970)(2/ 46)رشیدیۃ
فالحاصل أن مقتضى ظاهر الرواية كراهة قيامه في المحراب مطلقا سواء اشتبه حال الإمام أو لا وسواء كان المحراب من المسجد أم لا وإنما لم يكره سجوده في المحراب إذا كان قدماه خارجه لأن العبرة للقدم في مكان الصلاة۔
فی منحۃ الخالق بھامش البحر الرائق (2/ 45)رشیدیۃ
(قول المصنف وقيام الإمام إلخ) قال الرملي الذي يظهر من كلامهم أنها كراهة تنزيه۔
الفتاوى الهندية،لجنۃ علماء برئاسۃ نظام الدین البلخی(1/ 108)رشیدیۃ
ويكره قيام الإمام وحده في الطاق وهو المحراب ولا يكره سجوده فيه إذا كان قائما خارج المحراب هكذا في التبيين وإذا ضاق المسجد بمن خلف الإمام فلا بأس بأن يقوم في الطاق۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس