نمبر (1):۔فرض نماز کے بعد بعض لوگ ایک مرتبہ اللہ اکبر اورتین مرتبہ استغفراللہ کہتے ہیں اس کے بعد دوسرے اذکار کیے جاتے ہیں اور اس نوعیت کے سعودیہ اور مقامی مساجد میں پوسٹر دیکھے گئے ہیں ۔ جبکہ اسوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (مصنف: ڈاکٹر عبدالحی عارفیؒ)میں ترتیب استغفراللہ اولاًتین مرتبہ پھر دوسرے اذکارفرمائے ہیں ۔ اگر مندرجہ بالاترتیب ٹھیک ہے تو پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکی روایت” قال کنت اعرف انقضاء صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالتکبیر “والی روایت کاکیا مفہوم ہو گا ؟اگر حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماوالی روایت درست ہے تو پھر حضرت ابن عباس کوسلام کے الفاظ سےنماز کے مکمل ہو نے کا کیوں نہیں پتہ چلتاتھا ۔ اسی طرح خیر الفتاوی (2/456 )میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کو منسوخ یاحالت جہاد پر محمول کیاہےکیایہ ٹھیک ہے؟اگر خیرالفتاوی والی بات درست ہے تو پھر اللہ اکبر فرض نماز کے بعد عام حالت میں کیسے ثابت ہے ؟ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی روایت “کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا انصرف من الصلوۃ استغفراللہ ثلاثاً ” الخ قابل عمل ہے یانہیں ؟ مذکورہ روایت کی تائید کسی اور روایت سے بھی ہوتی ہے یانہیں؟
نمبر(2):۔فرض نماز کے بعد بلند آواز سے اللہ اکبر ،لاالہ الااللہ ،استغفراللہ یاکوئی اور ذکر کرناٹھیک ہے یانہیں ؟
نمبر(1):۔ فرض نمازوں کے بعدحضورﷺ کے قول وعمل سے مختلف اذکار واورادمنقول ہیں ، جن میں سےنمونہ کے طورپر چند اذکارباحوالہ یہ ہیں:
الف:۔حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے کاتب (منشی) ورّاد بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ کو خط لکھواتے ہوئے مجھے یہ املاء کروایا کہ نبی اکرمﷺہرفرض نماز کے بعد یہ پڑھتے:”لا إلهَ إِلَّااللَّهُ وَحْدَهُ لا شَريكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ وَهُوَ على كُلّ شئ قَدِيرٌ، اللَّهُمَّ لا مانِعَ لِمَا أعْطَيْتَ، وَلَا معطي لما مَنَعْتَ، وَلا يَنْفَعُ ذا الجد مِنْكَ الجَدُّ”.(الصحیح البخاري ۱/۱۱۷، كتاب الآذان، باب الذكر بعد الصلاة )”. ب:۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنماز سے فارغ ہونے کے بعد یہ پڑھتے تھے : “«لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ، وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ، أَهْلُ النِّعْمَةِ وَالْفَضْلِ وَالثَّنَاءِ الْحَسَنِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ، وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ» . (سنن النسائی ۱/ ۱۹۷،كتاب السهو، باب التهليل بعد التسليم)”. ج:۔حضرت مسلم بن ابی بكرة رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے والدہرنمازکے بعد اللّٰھُم اِنِّی أعُوذُ بِکَ منَ الکفرِ والفقرِ وَعَذابِ القَبرِ پڑھتے تھے ، تومیں بھی پڑھنے لگا، میرے والد نے مجھ سے پوچھا:بیٹا تم نے یہ کلمات کس سے حاصل کئے ؟ میں نے عرض کی آپ سے ،فرمایا: بلاشبہ رسول اللہ ﷺ یہ کلمات نماز کے بعد پڑھتے تھے ۔(سنن النسائی ۱/ ۱۹۸،كتاب السهو، باب التوذ في دبر الصلاة) د:۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺسلام پھیرنے کے بعد صرف” اللّٰهُمَّ أَنتَ السَّلامُ وَمنكَ السَّلامُ، تَبَارَكتَ ذَا الجِلالِ وَالإِكرامِ(سنن الترمذی ۱/ ۶۶، ابواب الصلاة، باب ما يقول إذا سلم )” کہنے کی بقدر بیٹھ جاتے تھے۔ ہ :۔حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایاکہ :’’جوشخص ہرفرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھے گا اسے جنت میں داخل ہونے سے روکنےوالی چیز صرف موت ہے۔” قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قرأ آية الكرسي دبر كل صلاة مكتوبة لم يمنعه من دخول الجنة، إلا الموت» (المعجم الكبير للطبراني ۸/ ۱۱۴،باب الصاد: محمد بن زياد الألهاني عن ابي أمامة)” و:۔حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :’’مجھے رسول اللہ ﷺنے ہرنماز کے بعد معوذتین پڑھنے کا حکم دیا۔”عن عقبة بن عامر، قال: أمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أقرأ بالمعوذتين في دبر كل صلاة. (سنن الترمذی۲/ ۱۱۸،ابواب فضائل القران،باب ماجاء في المعوذتين)” ز:۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے ایک دن میراہاتھ پکڑا اور ارشاد فرمایا:اے معاذ ! بے شک میں تم سے محبت کرتاہوں ، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ !میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں میں بھی آپ سے محبت کرتاہوں ،آپﷺ نے فرمایاکہ میں آپ کو وصیت کرتاہوں کہ آپ ہرنماز کے بعد یہ کہناہرگزنہ چھوڑیں” اللّٰهُمَّ أعِنِّي عَلٰى ذِكرِكَ وَشُكرِكَ وَحُسنِ عِبَادَتِكَ(مسند احمدحدیث نمبر:۲۲۱۱۹، تتمة مسند الانصار، باب معاذ بن جبل)” ح:۔صحیح مسلم میں حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺسے روایت فرماتے ہیں کہ چند تسبیحات ایسی ہیں کہ انہیں ہرفرض نماز کے بعد کہنے والامحروم نہیں ہوگا،تینتیس مرتبہ تسبیح (سبحان اللہ)،تینتیس مرتبہ تحمید(الحمدللہ) اور چونتیس مرتبہ تکبیر(اللہ اکبر)۔ ” عن كعب بن عجرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «معقبات لا يخيب قائلهن – أو فاعلهن – دبر كل صلاة مكتوبة، ثلاث وثلاثون تسبيحة، وثلاث وثلاثون تحميدة، وأربع وثلاثون تكبيرة» (صحيح مسلم ،1/ 418، كتاب المساجد ومواضع الصلاة،باب استحباب الذكر بعد الصلاة وبيان صفته)” مذکورہ اذکار کے علاوہ بھی مختصر اور طویل اذکار حضورﷺسے منقول ہیں اسی طرح اس سلسلہ میں حضرت ثوبان اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم کی احادیث بھی ہیں جو سوال میں نقل کی گئی ہیں ۔اب ظاہر سی بات ہے کہ آپﷺہرنماز کے بعد ان تمام اذکار کو اکٹھے نہیں پڑھتے تھے ، بلکہ آپ ﷺ کبھی ان اذکارمیں سے کسی کو اختیار فرماتے اور کبھی کسی اورکو، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اوپرذکرکردہ روایت سے معلوم ہوتاہے کہ آپ فرض نمازوں کے بعد زیادہ دیرتک نہیں بیٹھتے، بالبتہ جن احادیث میں آپﷺ سےنمازوں کے بعدطویل ذکر منقول ہےاس سے مراد وہ نمازیں ہیں جن کے بعد سنتیں نہیں ہیں یعنی فجراورعصر۔اور جن نمازوں کے بعد سنتیں ہیں ان میں سنتوں کے بعد طویل ذکر فرماتے تھے۔علامہ ظفراحمد عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی مایہ ناز تصنیف اعلاء السنن) جلد نمبر۲ صفحہ نمبر۹۸۳،دار الفكر(پرارشاد فرماتے ہیں کہ : “(قلت والظاهر أنه صلي الله عليه وعلي اله وسلم كان يأتي دُبر الصلاة بواحد من الأذكار فروي كل راو ماسمع ، وأمااحتمال أنه كان يأتي بجميع الأذكار الواردة في دبر الصلاة كل يوم بعد كل صلاة فبعيد جدا، كما لايخفي علي من له أدني فهم ،فحديث عائشة محمول عندنا علي فرض بعده سنة ، والأحاديث التي ورد فيها الذكر الطويل دبر الصلاة محمولة عندنا علي فرض ليس بعده سنة راتبة وإن كان بعده سنة فبعد الفراغ منها)”. ترجمہ : بظاہرحضورﷺنماز کے بعد ان میں سے کسی ایک ذکرکواختیار فرماتے اس لئے جس صحابی نے جوذکر سنااسے نقل فرمادیا ، یہ احتمال بہت ہی بعیدہے کہ آپﷺہرنماز کے بعد تمام اذکار منقولہ کو اختیار فرماتے ، جیسا کہ معمولی سمجھ رکھنے والے شخص پربھی یہ بات پوشیدہ نہیں ہے، لہٰذا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث (جس فرضوں کے بعدمختصر ذکرثابت ہوتاہے )سے مراد وہ فرض ہیں جن کے بعد سنتیں نہیں ہیں ،اور جن احادیث میں طویل ذکر وارد ہے ان سے مراد وہ فرض ہیں جن کے بعد سنتیں نہیں ہیں(یعنی فجراورعصر) اور اگر فرضوں کے بعد سنتیں ہوں (جیسے ظہر،مغرب اورعشاء)تو سنتوں سے فارغ ہونے کے بعد(طویل ذکرکرنامرادہے)۔ نیز اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ آپ ﷺنے ان میں سے کسی خاص ذکر کی پابندی نہیں فرمائی،یہی وجہ ہے کہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ آپ ﷺ”اللھم انت السلام ومنک السلام تبارکت ذالجلال والاکرام” سے پہلے تین مرتبہ استغفار کرتے تھے پھریہ کلمات پڑھتے تھےاور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے معلوم ہوتاہے کہ سب سے پہلے تکبیر پڑھی جاتی تھی جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں صرف ان کلمات کاذکر ہےنہ استغفار کا ذکرہے اور نہ ہی تکبیرکا، اس لئے روایاتِ بالا میں سے کسی خاص ذکر کو ضروری قراردینا، اس کی ترغیب دینااور باقی اذکار سے منع کرنادرست نہیں ،اوراس پر ایک قوی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکی سوال میں ذکرکردہ حدیث میں اگرچہ نمازکے بعدتکبیرکہنے کا ذکرآیاہے لیکن صحیحِ بخاری ہی میں اس روایت سے متصل پہلے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک دوسری روایت نقل کی گئی ہے جس میں مطلقاً’’ذکر‘‘کا لفظ ہے کسی خاص ذکرکی صراحت نہیں ہے اسی وجہ سے حضرت علامہ شبیراحمدعثمانی رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکی روایت میں موجود لفظِ ’’تکبیر‘‘سے ہروہ ذکرمراد لیاہے جواللہ کریم کی عظمت وکبریائی پردلالت کرے، چنانچہ حضرت رحمہ اللہ نے صحیح مسلم پر اپنی عظیم شرح فتح الملہم میں لفظِ تکبیرکے ذیل میں تحریرفرمایا ہے کہ : “قوله: (بالتكبير)إلخ :لعل المراد بالتكبير مطلق الذكر الدال علي كبريائه وعظمته سبحانه وتعاليٰ ، بقرينة قوله في الرواية الآتية : رفع الصوت بالذكر (فتح الملہم،۴/ ۱۶۵،دار العلوم کراچی).” ترجمہ :ظن غالب یہ ہے کہ تکبیرسے مراد مطلقاً ایساذکرہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عظمت وکبریائی پر دلالت کرے جیساکہ دوسری روایت میں’’ رفع الصوت بالذکر‘‘کے الفاظ آئےہیں(یعنی ذکرکا لفظ آیاہے نہ کہ تکبیرکا)۔ اورحضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے’’تکبیر‘‘سے مطلق ذکرمراد لیاہے۔(ملاحظہ فرمائیں فیض الباری ۲/ ۴۰۰:ط:مکتبۃ الحرمین کوئٹہ) ” (وربك فكبر) استدل به الحنفية: أن مطلق الذكر المشعر بالتعظيم يكفي للدخول في الصلوات، لأن قوله: «كبر»، معناه عظم، فالمأمور به هو مطلق التعظيم بأي صيغة كان، لا خصوص صيغة: الله أكبر، ولا سيما إذا ورد في سياق الصلاة، كما في قوله تعالى: {وذكر اسم ربه فصلى} فالسياق سياق الصلاة. والظاهر من الذكر هو الذي للشروع في الصلاة. فهذا دليل واضح على أن الضروري هو مطلق الذكر كما قلنا”.
نمبر (2):پھریہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیئے کہ آپﷺنے نمازوں کے بعد بلند آواز سے ذکرکرنے کی پابندی نہیں فرمائی، بلکہ کبھی کبھار بلندآوازسے ذکر فرمالیاکرتے تھےاورپھر بعد میں صحابہ ٔ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس ذکر بالجہر کی پابندی نہیں فرمائی،بلکہ آہستہ ذکرکرنے کو اختیار فرمایا۔ شارح حدیث ابن بطال صحیح بخاری کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں کہ : “وقول ابن عباس: إن رفع الصوت بالذكر كان حين ينصرف الناس من المكتوبة على عهد الرسول، يدل أنه لم يكن يفعل ذلك الصحابة حين حدّث ابن عباس بهذا الحديث؛ إذ لو كان يفعل ذلك الوقت لم يكن لقوله كان يفعل على عهد رسول الله معنى، … فكان التكبير بأثر الصلوات مثل هذا مما لم يواظب الرسول عليه طول حياته، وفهم أصحابه أن ذلك ليس بلازم فتركوه خشية أن يظن من قصر علمه أنه مما لا تتم الصلاة إلا به، فلذلك كرهه من الفقهاء من كرهه، والله أعلم (شرح صحیح البخاری لابن بطال،2/458، مكتبة الرشد)”. یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ فرمانا کہ نبی کریم ﷺکے زمانے میں فرض نماز کے بعد جہرکے ساتھ تکبیر کہی جاتی تھی خود اس بات کی دلیل یہ ہے کہ جس وقت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ بات ارشاد فرمائی اس وقت اس طرح ذکرکاصحابہ کرام کے ہاں معمول نہیں تھا، اس لئے کہ اگراس طرح (بآوازِ بلند) ذکر کا اس وقت معمول ہوتاتو یہ بات کہنے کے کوئی معنیٰ نہیں بنتے … جس کاحاصل یہ نکلا کہ اس عمل پرحضورﷺ نے پوری زندگی پابندی نہیں فرمائی ،اور صحابۂ کرام نے بھی یہی سمجھاکہ یہ لازم نہیں ہے تو انہوں نے اس اندیشے کے پیشِ نظراس کو چھوڑدیا کہ کہیں اس کو ضروری نہ سمجھا جانے لگے۔ حضرت شیخ الاسلام مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکی مذکورہ حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں : “علماء محققین نے یہ فرمایاہے کہ یہ ’’رفع الصوت بالذکر‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں احیانا ہواہے ، لیکن عام معمول نہیں تھا اور بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس کو اختیار نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما یہ فرمارہے ہیں کہ یہ امر حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں ہوا کرتاتھا یعنی اس وقت نہیں ہے جب دوسروں کو کہہ رہے ہیں۔”( انعام الباری(۳/ ۵۷۸)مکتبۃ الحرا،کراچی ) یہاں تک کہ ائمہ اربعہ اور جمہور اس بات پرمتفق ہیں کہ نمازوں کے بعد ذکر آہستہ کرنا ہی مسنون ہے۔امام نووی رحمہ اللہ نےعلامہ ابن بطال وغیرہ حضرات سے نقل فرمایا ہے کہ تمام مذاہبِ متبوعہ نمازوں کے بعد بآوازِ بلند ذکروتکبیر کے عدمِ استحباب پرمتفق ہیں اور آپﷺ سے جو بلند آواز سے ذکرمنقول ہے اسے حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے وقتی تعلیم پر محمول فرمایاہے کہ آپﷺ نے صحابہ کو سکھانے کی غرض سے معمولی عرصہ تک بآوازِ بلند ذکرفرمایا، ہمیشہ بآواز بلند ذکرنہیں فرمایا۔امام نووی رحمہ اللہ کی عبار ت ملاحظہ فرمائیں ۔ “ونقل بن بطال وآخرون أن أصحاب المذاهب المتبوعة وغيرهم متفقون على عدم استحباب رفع الصوت بالذكر والتكبير وحمل الشافعي رحمه الله تعالى هذا الحديث على أنه جهر وقتا يسيرا حتى يعلمهم صفة الذكر لا أنهم جهروا دائما”(شرح النووی علی مسلم ۵/ ۸۴, دار إحياء التراث العربي) جن حضرات نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکی روایت کومنسوخ قرار دیایا حالتِ جہاد پرمحمول کیا مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوتاہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بآوازِ بلند ذکرکرنا اور اس کولازمی سمجھ کر اس کی پابندی کرنامنسوخ ہے یا اس کاحکم حالتِ جہاد کے ساتھ خاص ہے تاکہ دشمن پر رُعب طاری ہو، اگرکوئی شخص آہستہ یامعمولی درجے کی اونچی آواز سے کبھی کبھار اللہ اکبر کہہ لے یاکوئی اور ذکرکرلےتو اس پر نکیرنہیں کی جاسکتی۔
صحيح البخاري، محمد بن إسماعيل(م: 256هـ)(1 /168)دارطوق النجاة
عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: «كنت أعرف انقضاء صلاة النبي صلى الله عليه وسلم بالتكبير»۔
فتح الباري لابن حجر العسقلاني(م: 852هـ)(2/326) دارالمعرفة
قال عياض الظاهر أنه لم يكن يحضر الجماعة لأنه كان صغيرا ممن لا يواظب على ذلك ولا يُلزَم به فكان يعرف انقضاء الصلاة بما ذكر وقال غيره يحتمل أن يكون حاضرا في أواخر الصفوف فكان لا يعرف انقضاءها بالتسليم وإنما كان يعرفه بالتكبير… وكأنهم كانوا يبدءون بالتكبير بعد الصلاة قبل التسبيح والتحميد وسيأتي الكلام على ذلك في الحديث الذي بعده
فيض الباري،محمد أنورشاه الكشميري(م:1353ھ)(2/399) دارالكتب العلمية
فيقول تارة: اللهم انت السلام …الخ كماعند الترمذي وتارة :اللهم أعني علي ذكرك …الخ كما عند أبي داؤد. وأخري كلمة التوحيد،كماعندالبخاري ،وهذٰا هو مرضي الشارع أن يؤتي بهاحينا كذا وحينا كذا لاأن يجمع بينهما
إعلاء السنن،مولانا محمد ظفرأحمدالعثماني(م:1394ھ) (2/982،983)دارالفكر
٩١: عن عائشة، قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا سلم لم يقعد إلا مقدار ما يقول: ’’اللهم أنت السلام ومنك السلام، تباركت ذا الجلال والإكرام‘‘ وفي رواية ابن نمير ’’يا ذا الجلال والإكرام ‘‘أخرجه مسلم
قال الشيخ رحمه الله تحته
قال الطحطاوي: وهي (رواية عائشة)تفيد كالذي ذكره المؤلف : أنه ليس المراد أنه كان يقول ذلك بعينه (كل يوم) بل كان يقعد زمانا يسع ذلك المقدار ونحوه من القول تقريبا فلاينافي ما في الصحيحين عن المغيرة: أنه صلي الله عليه وعلي اٰله وسلم يقول دبركل صلاة مكتوبة(أي في أكثر الأوقات ): لا إله إلا الله وحده إلخ ، ولاينافي مافي مسلم عن عبدالله بن الزبير:كان رسول الله صلي الله عليه وعلي اله وسلم إذا فرغ من صلاته قال بصوته الأعلى (أي كثيراما) لاإله إلاالله وحده إلي قوله ولوكره الكافرون :لأن المقدار المذكور (في حديثِ عائشة) من حيث التقريب دون التحديد، قد يسع كل واحد من هٰذه الأذكار لعدم التفاوت الكثير بينهما