نمبر 1۔نظامِ الیکشن کا بانی کو ن اور اس کے مقاصد کیا تھے ؟کیا اہل اسلام صدیوں کی تاریخ میں معاشرہ کی اصلاح وفلاح کے لئے الیکشن لڑتے آئے ہیں ۔خلفاء راشدین مہدین رضوان اللہ تعالی ٰعلیہم اجمعین کا دور تاریخِ اسلام کا بہترین تھا اس میں معاشرتی مسائل قرآن وسنت کی روشنی میں حل کئے گئے ۔اور وہ ہمارے لئے نمونہ ہے،تو کیا وہاں حکومت کا قیا م الیکشن کے ذریعے سے ہوا ۔کیا مسلما ن ملک میں مسلما ن اور کافر کو الیکشن کےذریعے برابرحکومت کا حق حاصل ہے ؟نظام الیکشن میں جماعت کی بنیاد پر ہر قسم کا لڑائی جھگڑا کرتے ہیں یہاں تک کہ کئی افراد قتل کر دیے جا تے ہیں اور یہ سلسلہ طویل صورت حال اختیار کر جاتا ہے ،جو نظام الیکشن مجموعہ معصیات ہے ۔کیا اس نظام کے ذریعے سے معاشرہ کی اصلاح ممکن ہے۔
نمبر2۔نظام الیکشن میں دینی ودنیاوی کیا فوائدہیں ؟
کیا وجہ ہے نظام الیکشن کے ذریعے سے غیر دین دار طبقہ کے ہاتھ میں نظام حکو مت آتا ہے ۔اور وہ دینی نقصانات کا ارتکا ب کرتے رہتے ہیں ۔
نمبر 3۔ اسلام میں مرد وعورت برابر نہیں جبکہ الیکشن میں ان کی حیثیت برابر ہے ۔اسلام کی رو سے مسلمان اور کافر میں بہت بہت فرق ہے ،یہاں تک کہ قبرستا ن الگ الگ ہیں ،جبکہ نظام الیکشن میں مسلمان اور کافر کو ایک ہی حیثیت میں رکھا گیا ہے ۔کیا عورت الیکشن لڑسکتی ہے ؟
نمبر4۔ہمارے علاقے میں ایک کٹر شیعہ رافضی ہے جاگیر دار ہے بڑی تعداد میں سنی مسلمان اس کو ووٹ ڈالتے ہیں ، الیکشن جیتنے کے بعد وہ شیعہ عقائد ونظریات کو عام کر نے کے لئے ہر قسم کی کوشش کرتا ہے ، یہاں تک کہ کئی سنی مسلمان شیعہ ہو گئے ہیں اب اس کو ووٹ ڈالنے والوں کے لئے کیا حکم ہے ؟
نمبر 5۔امریکہ ،برطانیہ اور پاکستان میں جو ووٹ ہوتے ہیں ان میں کیا فرق ہے؟
نمبر6۔الیکشن کے نظام میں نبوت وخلافت کی با ت نہیں ہوتی جمہوریت جمہوریت کی بات ہے ،تو نظام نبوت وخلافت اور نظام جمہوریت میں کیا فرق ہے ؟
نمبر 7۔اسلامی اعمال وافعال کا تارک تو حکومتی مجرم نہیں ،جبکہ خلفاءراشدین مہدین رضو ان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں مجرم تھا ،خلیفۃ الرسول فنافی الرسول امامنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے منکرین زکوٰۃ کے خلا ف اعلانِ جنگ فرمایا۔جبکہ ووٹ نہ ڈالنے والے حکو متی مجرم ہو تے ہیں ،معلوم ہو ا ان لوگوں کے ہاں اسلامی شرعی حدود وقیود کی وہ حیثیت نہیں جو جمہوری نظام کی حیثیت ہے ،کیا ایسے لوگ جو اسلام کے خیر خواہ تو نہ ہوں وہ اہل اسلام کے خیر خواہ ہوں،قرآن وسنت وفقہ حنفی میں وہ کون سے اصول وقواعد وضوابط ہیں جو اصلاح معاشرہ ضروریات معاشرہ کے لئے نہیں ہیں جو الیکشن کے نظام کے ذریعے سے معاشرتی مسائل حل ہوتے ہیں ۔
نمبر (1-2)۔۔۔یہ بات تو واضح ہے کہ مروجہ نظامِ انتخابات اور جمہوریت کی بنیاد اسلام کے اصول پر نہیں رکھی گئی اور نہ یہ طریقہ قرآن و سنت اورصحابہ کرام سے ثابت ہے اور ان کے بعد خلفاء میں بھی رائج نہیں تھا ۔ بلکہ خالصتاً یہ نظام غیر مسلم اقوام کی ایجاد ہے ،جس میں بہت خامیاں ہیں،مسلمانوں کی اصل ذمہ داری تو یہ ہے کہ اسلامی اصولوں کے مطابق سیاسی نظام کو رائج کریں ۔ لیکن جب تک اس کی کوئی عملی صورت نہیں بنتی تو ہمارے پاس دو ہی صورتیں ہیں،یاتو ہم اس نظام سے بالکل کنارہ کش اور اس کام سے یکسو ہو جائیں یا بامرِ مجبوری اس نظام کی خرابیوں کی ممکنہ حد تک اصلاح کی کوشش کے ساتھ اس میں شریک ہوں۔ ظاہر ہے کہ پہلی صورت اختیار کرنے میں فساق و فجار اور بے دین لوگوں کا غلبہ ہونا یقینی اور صورت حال مزید بدتر ہو نے کا اندیشہ قوی ہے ؛ اس لئے شریعت اسلامیہ کے اس اصول” جب کوئی شخص دو مصیبتوں میں گرفتار ہو تو کم درجہ کی مصیبت کو اختیار کیا جائے”( )کے مطابق دوسری صورت اختیار کرنا اور اس میں دَخِیل ہو کرمروجہ نظام کی اصلاح کی بھرپور کوشش کرنا ہی بہترہے ۔(نظام سیاست اور انتخابات سے متعلق مکمل تفصیل جاننے کے لئے مطالعہ فرمائیے : ” اسلام اور سیاسی نظریات “؛مولانامفتی جسٹس (ر)محمدتقی عثمانی صاحب )
نمبر (3)۔۔۔اس پر سب کا اتفاق ہے کہ سربراہ مملکت کے لئے مرد ہو نا ضروری ہے ، عورت سربراہ مملکت نہیں بن سکتی اور اس مقصد کے لئے اس کو ووٹ دینا بھی جائز نہیں ہے،البتہ قومی یا صوبائی اسمبلی کی ممبر شپ کے حوالے سے ایک سے زائد آراء کی گنجائش معلوم ہوتی ہے ۔ لیکن اس کے مفسدہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ،اس لئے اس سے بچنا ہی بہتر ہے اورحتی الوسع اس کی اصلاح کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔
نمبر (4)۔۔۔مذکورہ تفصیل کو پیش نظر رکھتے ہو ئے واضح رہے کہ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرناہرشخص کی ذمہ داری ہے ، شرعی نقطہ نظر سے ووٹ کی شرعی حیثیت ایک گواہی کی سی ہے ، جس طرح جھوٹی گواہی دینا اور سچی گواہی کو چھپاناجائز نہیں ہے،اسی طرح ووٹ کا غلط استعمال بھی جائز نہیں ہے ۔ حتی الامکان کسی اہل شخص کو ووٹ دینے کا اہتمام کرنا چاہئے ، تاکہ نااہل لوگوں کے اقتدار میں آنے میں رکاوٹ ہو ۔لیکن اگر کوئی شخص کسی مجبوری یا شرعی عذر کی وجہ سے ووٹ نہ دے سکے تو اس کو گناہ گار نہیں کہا جائے گا۔
جس شخص میں مندرجہ ذیل صفات ہوں اس کو ووٹ دیناچاہیے
نمبر 1۔امیدوار عقیدے کے لحاظ سے پکا مسلمان ہو ۔ 2۔دیندار ہو یا کم از کم دین ، اہل دین اور شعائر ِاسلام کا دل سے احترم کرتا ہواور ملک میں اسلامی قانون نافذ کرنے کا جذبہ رکھتا ہو ، 3۔ دیانتدار ہو ، ضمیر فروش نہ ہو ، 4۔ نظریہ پاکستان اور اسلامی قومیت کا حامی ہو۔ 5۔ شریف اور بااخلاق ہو ، ملک اور قوم کی واقعی خدمت کرنا چاہتا ہو ۔ 6۔ کھلم کھلافسق و فجور میں مبتلا نہ ہو۔ 7۔ سلیم الفکر اور نظام ِحکومت کو اچھی طرح جانتا ہو ۔
لہٰذاجس شخص میں مذکورہ صفات نہ ہوں اس کو ووٹ دیناجائز نہیں ہے ۔ بلکہ جو شخص مندرجہ بالا معیار پر پورا اترتا ہو اسے ووٹ دے کر کامیاب بنانے کی کو شش کریں ۔ اگر امیدواروں میں سے کوئی بھی اس معیار پر پورا نہ اترے تو ایسی صورت میں تقلیلِ شر کے ضابطے اور اجتماعی مفادکو ملحوظ رکھتے ہوئے باقی امیدواروں میں سے کم برے امیدوار کو ووٹ دینا چاہئے ، تاکہ زیادہ بُرے امیدوار کے شر سے سب محفوظ رہ سکیں ۔
نمبر (5)۔۔۔اس کے جواب کا تعلق فتویٰ سے نہیں ہے ۔
نمبر (6،7)۔۔۔اس کا تفصیلی جواب جاننے کےلئے مذکورہ بالا کتاب ملاحظہ فرمائیں