بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

میڈیکل لائسنس کو کرایہ پر دینا منع ہے ، ا س کی جائز متبادل صورت

سوال

میرے والد صاحب نے اپنا ميڈیکل لائسنس کسی دوسرے شخص کو دیا ہے جس پر اس دوسرے شخص نے مڈیکل سٹور کھولا ہواہے اور وہ شخص میرے والد صاحب کو سالانہ فیس(کرایہ) بھی دیتاہے کیا وہ پیسے میرے والد صاحب کےلئے جائز ہے یا نہیں؟ انکی جائز صورتیں کیا ہوسکتی ہیں؟ مہربانی فرماکر وضاحت فرمادیں۔

جواب

واضح رہے کہ حکومت کی طرف سےعوام کی مصلحت کے خاطرميڈیکل سٹور چلانے کے لئے لائسنس(اجازت نامہ) شرط ہے جو کہ مخصوص صلاحیت کے حامل افراد کو جاری کیاجاتا ہے اور اس کا استعمال قانونا بھی اس کی ذات تک ہی محدود رہتاہے، کسی اورکے لیے اس لائسنس کو استعمال کرنے کی قانونا اجازت نہیں ہوتی اور حکومت کی ایسی جائز پابندیاں جو مفاد عامہ کی مصلحت میں ہوں ان کی پاسداری کرنا شرعا بھی لازم ہوتی ہے اور اس کی خلاف ورزی جائز نہیں ہوتی ، نیز اس لائسنس کو کرایہ پر دینا اور لینا جائز نہیں ، لہذا مذکورہ صورت میں لائسنس پر کرایہ کے نام پر حاصل کردہ رقم کا استعمال جائز نہیں ، بلکہ مالک کو واپس کرنا ضروری ہے ۔
البتہ جائز صورت اس کی یہ ہو سکتی ہے کہ لائسنس کا حامل شخص سٹور میں شراکت داری کرے اور نفع میں شریک ہوجائے یاکم ازکم کوئی ذمہ داری قبول کرےمثلا نگرانی وغیرہ اور اپنی خدمات کی اجرت یا فیس ان سے وصول کرتارہے،لیکن محض لائسنس کی اجرت لینا درست نہیں ۔
تفسير البغوي، أبو محمد الحسين بن مسعود البغوي الشافعي (م : 510هـ) (1/ 650) إحياء التراث
قوله تعالى: يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم، اختلفوا في وأولي الأمر، قال ابن عباس وجابر رضي الله عنهم: هم الفقهاء والعلماء الذين يعلمون الناس معالم دينهم، وهو قول الحسن والضحاك ومجاهد، ودليله قوله تعالى: ولو ردوه إلى الرسول وإلى أولي الأمر منهم لعلمه الذين يستنبطونه منهم [النساء: 83] وقال أبو هريرة: هم الأمراء والولاة، وقال علي بن أبي طالب رضي الله عنه: حق على الإمام أن يحكم بما أنزل الله ويؤدي الأمانة فإذا فعل ذلك فحق على الرعية أن يسمعوا ويطيعوا
الصحيح لمسلم بن الحجاج القشيري النيسابوري (م: 261هـ) (1/ 99) دار إحياء التراث العربي
عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من حمل علينا السلاح فليس منا، ومن غشنا فليس منا»۔
بحوث في قضايا فقهية معاصرة،المفتي محمد تقي العثماني(1/115)دار العلوم كراچي
أما إذا كانت الرخصة باسم رجل مخصوص أو شركة مخصوصة، ولا يسمح القانون بنقلها إلى رجل أخر أو شركة أخرى، فلا شبهة في عدم جواز بيعها، لأن بيعها يؤدي حنئذ إلى الكذب والخديعةن فإن مشتري الرخصة يستعملها باسم  البائع لا باسم نفسه، فلا يحل ذالك إلا بأن يؤكل حامل الرخصة بالبيع والشراء۔
رد المحتار، ابن عابدين  الشامي(م: 1252هـ) (3/ 156)سعيد
والأجرة إنما تكون في مقابلة العمل۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس