بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

موجودہ زمانے میں قتل عمد وقتل شبہ سےمتعلق کون سا قول اختیار کریں

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ فقہی کتابوں میں قتل عمد اور قتل شبہ عمد کی تعریفات میں ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اور صاحبین رحمہما اللہ کے مابین اختلاف ہے ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ قتل عمد کی تعریف میں ہتھیار اور الہ کا اعتبارکرتے ہیں اور صاحبین فاعل کے فعل اور ارادے کا اعتبار کرتے لہذا اس صورت میں آج کے زمانے میں فتوی کس کے قول پر ہے ابو حنیفہ کے قول پر یا صاحبین کے قول پر۔نیز ملکی قانون بناتے وقت کس کے قانون کا اعتبار کیا جائے گا اور دوسرا سوال یہ ہے کہ آج کے موجودہ دور میں زہردے کر ہلاک کرنا یا زہر کا انجکشن لگانا یاقتل بالمثقل یا چلتی ٹرین سے دھکا دے کر گرا دینا کس قتل میں شمار ہوگا قتل عمد میں یا قتل شبہ عمد میں۔مفتیان کرام سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ کا جواب عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں ۔

جواب

فقہاء کرام کی تصریح کے مطابق دھاری دار آلے کے علاوہ بلا قصد زہر دینے یا قتل بالمثقل کو امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق قتل عمد میں شمار نہیں کیا گیا ۔ البتہ صاحبین کی رائے اس کے خلاف ہے اس لیے بعض معاصر اہل علم کی رائے کے مطابق موجودہ زمانےمیں چونکہ قتلِ نفس کی واردتیں بےحدبڑھ گئی ہیں اورقتل کےنت نئےطریقےایجاد ہوگئے ہیں لہٰذاملکی قانون اورفتوی کےلئےصاحبین رحمھمااللہ عنہما کا قول اختیارکرنا زیادہ بہتراورمناسب ہے اسی وجہ سے زہراورمثقل سےقتل عمد کہلائےگا البتہ ٹرین سےدھکا دےکرقتل کرنا شبہ عمدکہلائےگاکیونکہ اس میں غالباًجان بچنےکےزیادہ امکانات ہیں۔
ردالمحتار (10/160) رشيدية
واعلم أن ما ذكره من أحكام الإثم والقود والكفارة كما لزم في العمد وشبهه عنده لزم عند هما إلا أن العمد عندهما ضربه قصدا بما يقتل غالبا وشبه العمد بما لا يقتل غالبا۔۔۔ ويفتى بقوله كما في التتمة اهـ وتمام هذه المسائل يذكر في الفصل الآتي.وفي المعراج عن المجتبى: يشترط عند أبي حنيفة أي في شبه العمد أن يقصد التأديب دون الإتلاف۔
الفتاوى الهندية (6/3) دارالكتب العلمية
وشبه العمد أن يتعمد الضرب بما ليس بسلاح ولا ما جرى مجرى السلاح عند أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – وقال أبو يوسف ومحمد – رحمهما الله تعالى -: إذا ضربهبحجر عظيم أو خشبة عظيمة فهو عمد وشبه العمد أن يتعمد ضربه بما لا يقتل به غالبا والصحيح قول أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – كذا في المضمرات۔۔۔۔وإذا سقى رجلا سما فمات من ذلك، فإن أوجره إيجارا على كره منه، أو ناوله ثم أكرهه على شربه حتى شرب، أو ناوله من غير إكراه عليه، فإن أوجره، أو ناوله وأكرهه على شربه فلا قصاص عليه، وعلى عاقلته الدية، وإذا ناوله فشرب من غير أن أكرهه عليه لم يكن عليه قصاص، ولا دية سواء علم الشارب بكونه سما، أو لم يعلم هكذا في الذخيرة ويرث منه وكذا لو قال لآخر: كل هذا الطعام فإنه طيب فأكله، فإذا هو مسموم فمات لم يضمن كذا في الخلاصة۔
اعلاءالسنن (17/8375) دارالفكر
واخطا من زعم انه مخالف لابي حنيفة،لانه زعم ان مذهبه ان القتل بالمثقل غيرموجب للقودمطلقاّ بل مذهبه ان القتل بالمثقل غيرموجب للقوداذالم يكن القتل مقصوداللقاتل،كمانص عليه في( المجتبى)نقل عنه العيني في(البناية)۔
تكملة فتح الملهم (2؟201) دارالعلوم كراچي
والذي يظهر لهذا العبدالضعيف ان العمل بمذهب الصاحبين والجمهوراوليى في زماننا الذي كثرفيه القتل وشاع فيه التعدي علي المعصومين من قبل المفسدين۔
الدر المختار مع رد المحتار (1/ 74) سعيد
وأن الحكم والفتيا بالقول المرجوح جهل وخرق للإجماع…. قلت: لكن هذا في غير موضع الضرورة، فقد ذكر في حيض البحر في بحث ألوان الدماء أقوالا ضعيفة، ثم قال: وفي المعراج عن فخر الأئمة: لو أفتى مفت بشيء من هذه الأقوال في مواضع الضرورة طلبا للتيسير كان حسنا. اهـ. وكذا قول أبي يوسف في المني إذا خرج بعد فتور الشهوة لا يجب به الغسل ضعيف، وأجازوا العمل به للمسافر أو الضيف الذي خاف الريبة كما سيأتي في محله وذلك من مواضع الضرورة۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس