بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

ملازم سے پیر یا ہفتہ کی چھٹی کی وجہ سے اتوار کی چھٹی کی تنخواہ کاٹنا

سوال

جناب مفتی صاحب ایک مسئلہ کے بارے میں شرعی راہنمائی درکار ہے ،مسئلہ یہ کہ ہماری دکان میں ہم نے اپنے ماتحتوں کے لیے چھٹیوں کا یہ اصول بنایا ہے کہ اگر کوئی ملازم اتوار کے ساتھ پیر کی یا ہفتہ اور پیر دونوں کی اتوار کے ساتھ ملا کر چھٹی کرتا ہے تو ہم اس کی اتوار کی چھٹی کی بھی دیگر چھٹیوں کے ساتھ کٹوتی کرتے ہیں اور ہمارے پیشِ نظر یہ ہوتا ہے کہ ہم اتوار کی تنخواہ چونکہ ملازم کو گھر بیٹھے دے رہے ہیں۔
نیزاس کے مزید چھٹیاں کرنے سے کام کا حرج زیادہ ہوجاتا ہے اسی طرح عید کی چھٹیوں کا بھی ہمارے ہاں یہی اصول ہے ،اس اصول کے ذکر کرنے کے بعدعرض یہ ہے کہ حال میں میرے سامنے ایک دارالافتاء کا فتویٰ آیا (فتویٰ سوال کے ساتھ منسلک ہے) جس میں اس اصول کو ناجائز قرار دیا گیا ہے ،لہذا آپ حضرات سے گزارش ہے مذکورہ معاملے کا تصفیہ فرما کر راہنمائی فرمائیں کہ آیا ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

مسئولہ صورت میں آپ نے اپنی دکان کے ملازمین کےلئے چھٹیوں کے حوالے سے جو ضابطہ بنایا کہ اتوار یا عیدین کی چھٹی کے ساتھ اگر کوئی ملازم پہلے یا بعد میں متصل چھٹی کرلیتاہے تو اتوار وغیرہ کی چھٹی بھی اس کی چھٹیوں کے کھاتے میں شمار کرلی جاتی ہے۔ ادارہ کی مصلحت کے پیشِ نظر مذکورہ ضابطہ اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ ملازمین کو معاملے کے وقت اس ضابطے سے باقاعدہ آگاہ کرکے ان سے دستخط کرالئے جائیں۔
نیز آپ نے جس فتوی کا ذکر کیا ہے اس کا تعلق آپ کے پوچھے گئے سوال سے نہیں ہے ، بلکہ اس کا تعلق اس سے ہے کہ چھٹی کی وجہ سے ایام عمل کی تنخواہ کاٹنا منع ہے۔
سنن ابن ماجه، أبو عبد الله محمد بن يزيد (م: 273هـ) (2/ 788) دار إحياء الكتب العربية
2353 – حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قال: حدثنا خالد بن مخلد قال: حدثنا كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف، عن أبيه، عن جده، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: «الصلح جائز بين المسلمين، إلا صلحا حرم حلالا، أو أحل حراما» ۔
المعجم الكبير للطبراني (17/ 22) مكتبة ابن تيمية
30 – حدثنا محمد بن إسحاق بن راهويه، ثنا أبي، ثنا أبو عامر العقدي، عن كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف المزني، عن أبيه، عن جده، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «المسلمون على شروطهم إلا شرطا حرم حلالا، وأحل حراما، والصلح جائز بين الناس، إلا صلحا أحل حراما أو حرم حلالا»۔
سنن ابن ماجه (2/ 784) دار إحياء الكتب العربية
عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا ضرر ولا ضرار»۔
الدر المختار (6/ 69) سعيد
(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة۔
النتف في الفتاوى للسغدي (2/ 559) دار الفرقان بيروت
وإذا وقعت على وقت معلوم فتجب الأجرة بمضي الوقت إن هو استعمله أو لم يستعمله وبمقدار ما مضى من الوقت تجب الأجرة۔
رد المحتار على الدر المختار (4/ 372)سعيد
مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظيفة في يوم البطالة (قوله: وينبغي إلحاقه ببطالة القاضي إلخ) قال في الأشباه وقد اختلفوا في أخذ القاضي ما رتب له في بيت المال في يوم بطالته، فقال في المحيط: إنه يأخذ لأنه يستريح لليوم الثاني وقيل لا. اهـ. وفي المنية القاضي يستحق الكفاية من بيت المال في يوم البطالة في الأصح، وفي الوهبانية أنه أظهر فينبغي أن يكون كذلك في المدرس؛ لأن يوم البطالة للاستراحة، وفي الحقيقة تكون للمطالعة والتحرير عند ذوي الهمة، ولكن تعارف الفقهاء في زماننا بطالة طويلة أدت إلى أن صار الغالب البطالة، وأيام التدريس قليلة اهـ ورده البيري بما في القنية إن كان الواقف قدر للدرس لكل يوم مبلغا فلم يدرس يوم الجمعة أو الثلاثاء لا يحل له أن يأخذ ويصرف أجر هذين اليومين إلى مصارف المدرسة من المرمة وغيرها بخلاف ما إذا لم يقدر لكل يوم مبلغا، فإنه يحل له الأخذ وإن لم يدرس فيهما للعرف، بخلاف غيرهما من أيام الأسبوع حيث لا يحل له أخذ الأجر عن يوم لم يدرس فيه مطلقا سواء قدر له أجر كل يوم أو لا. اهـ. ط قلت: هذا ظاهر فيما إذا قدر لكل يوم درس فيه مبلغا أما لو قال يعطى المدرس كل يوم كذا فينبغي أن يعطى ليوم البطالة المتعارفة بقرينة ما ذكره في مقابله من البناء على العرف، فحيث كانت البطالة معروفة في يوم الثلاثاء والجمعة وفي رمضان والعيدين يحل الأخذ، وكذا لو بطل في يوم غير معتاد لتحرير درس إلا إذا نص الواقف على تقييد الدفع باليوم الذي يدرس فيه كما قلنا. وفي الفصل الثامن عشر من التتارخانية قال الفقيه أبو الليث ومن يأخذ الأجر من طلبة العلم في يوم لا درس فيه أرجو أن يكون جائزا وفي الحاوي إذا كان مشتغلا بالكتابة والتدريس. اهـ۔
The Punjab Shops And Establishments Ordinance,1969 (W.p.ord) Section No14,15

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس