ہماری کمپنی میں یہ بات طے ہے کہ ورکرزسردیوں/گرمیوں کے اپنے فالتوکپڑے اتار کر اس کی طے شدہ مقررہ جگہ پر رکھیں اور مخصوص جگہ پر کام کریں ۔ایک دن کمپنی کے ایک مالک نے کمپنی کے وزٹ کے دوران تین ورکرزکے کپڑے مقررہ جگہ سے ہٹ کرکا م کی جگہ پر پڑے ہوئے دیکھے تو اس جگہ کے اوون ( انچارج) کوکہاکہ یہ کپڑے سٹورمیں دے آؤاور سٹور والوں سے یہ کہہ دو کہ یہ کپڑے مالک نے رکھوائے ہیں میری اجازت کے بغیر کسی کو نہیں دینے ہیں ۔
اوون انچارج نے وہ کپڑے سٹور میں دئے اور ایساہی پیغام بھی دے دیا جیساکہ انہوں نے کہا۔ اگلے دن مالک نے سٹور والوں کوبلایا کہ میرے پاس آؤتاکہ کپڑوں کامعاملہ حل کیاجائے وہاں تمام مالکان موجود تھے ۔جب سٹور والالڑکا آیا تو اس نے کہا کہ جناب کپڑے تو کل شام کو وہ لڑکے لے کرچلے گئے جس پر مالک کافی ناراض ہوئے اور اوون انچارج کوبلایاکہ تم کپڑے بغیر اجازت کیوں لے کر گئے ؟ تو اس نے کہا کہ جناب مجھے سٹوروالےنے کہاکہ تم اپنے کپڑے آکر لے جاؤجس کے بعد میں نے لڑکوں کوکہا کہ اپنے کپڑے جاکر سٹور سے لےلو۔ہم سمجھے کہ سٹور والوں کو آپ نے اجازت دےدی ہے اس لئے سٹور والے ہمیں کہہ رہے ہیں کہ کپڑے آکر لےجاؤ ۔اس کے بعد جناب مالک نے سٹور والے سے پوچھا کہ تم نے انچارج کو کیوں کہا کہ کپڑے لے جاؤ جس کے جواب میں سٹور والے نے کہا کہ جناب میں نے ان کو بالکل نہیں کہا کہ سٹور سے کپڑے لے جاؤ ،یہ لوگ میرے چھٹی کرنے کے بعد دوسرے سٹور والے لڑکے سے کپڑے لے کر گئے ہیں ۔
دونوں فریقین سے کافی پوچھا گیا لیکن اوون انچارج نے کہا کہ جناب مجھے سٹور والے نے کہا تو میں نے لڑکوں کو کپڑے لینے کیلئے بھیجا ورنہ میں کیسے جرات کرسکتاہوں کپڑے اٹھانے کی جبکہ میں خود اپنے ہاتھوں سے کپڑے سٹور میں دےکر آیاہو ں ۔ اسی طرح سٹور والے نے کہا کہ جناب مجھے پتہ ہے کہ جب مالک نے حکم دیاہے بغیر اجازت نہیں دینے کےتو میں اپنی طرف سے کیسے کہہ سکتاہوں کہ کپڑے لے جاؤ ۔جن لڑکوں کے کپڑے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارے انچارج نے کہا تو ہم نے سٹور میں جاکر اس دوسرلڑکے سے کپڑے لےلئے ۔دونوں فریقین اپنی اپنی جگہ بضد ہیں جس کے بعد مالک نے کہا کہ اس معاملے کی انکوائری کریں اور قصوروار شخص کی نشاندہی کرکے اس کونوکری سے فارغ کر دیں ۔اس کے بعد انکوئری کی گئی جس میں دونوں سٹور والے لڑکے ، اوون انچاجاوران تین لڑکوں جن کے کپڑے تھے ان سے زبانی اور تحریری بیانات لئے گئے ہیں اس مسئلہ میں راہنمائی فر مائیں
نمبر1:- ان ملازمین میں سے کون مجرم ہے ؟ جبکہ سٹور والے اور انچارج دونوں قسم اٹھانے کو بھی تیا ر ہیں اور ان دونوں کے پاس کوئی گواہ موجود نہیں ہے؟ اگر قسم اٹھانی پڑے تو وہ کون اٹھائے اورکن الفاظ سے اٹھائے گا ؟
نمبر2:۔ایسی صورت حال میں ملزمان سے سادہ قسم /مسجد میں لے جاکر قسم /کلماکی قسم وغیرہ کاکیا شرعی حکم اور طریقہ کار ہے ؟
نمبر3:۔مالک کی اجازت کے بغیر ممنوعہ اور خطرناک جگہ پر کپڑے رکھنا اور مالک کی اجازت کے بغیر کپڑے از خود لے لینا یادے دینا کس درجہ کی نافرمانی ہے ؟اور کس درجہ کی سزا مالک کی طرف سے دی جاسکتی ہے ؟
مذکورہ صورت میں مجر م کی تعیین کے بجائے تینوں فریقوں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی اور قواعد وضوابط پر عمل نہ کرنے پر توبہ کریں ۔اور مالک کو چائیے کہ ان کو مناسب اور جائز تادیبی کاروائی کرنے کے بعد معاف کردے ۔یہ اس کے لئے زیادہ بہتر اور باعث اجر ہے۔
مسند أحمد، أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني (م:241 هـ)(20/ 423)مؤسسة الرسالة
عن أنس قال: ما خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم إلا قال: ” لا إيمان لمن لا أمانة له، ولا دين لمن لا عهد له ” ۔
المعجم الكبيرللطبراني،أبوالقاسم سليمان بن أحمد(م: 360هـ)(17/ 22) مكتبة ابن تيمية – القاهرة
عن كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف المزني، عن أبيه، عن جده، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «المسلمون على شروطهم إلا شرطا حرم حلالا، وأحل حراما، والصلح جائز بين الناس، إلا صلحا أحل حراما أو حرم حلالا»۔