بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

مقرض کا پتہ نہ چلے تو اس کی رقم کا حکم

سوال

عرض یہ ہے کہ ایک شخص حجاز مقدس میں کام کرنے گئے تھے وہاں جاکر وہ بیماری میں مبتلا ہوگئے تو وہاں پر کام کرنے گئے ہوئے لوگوں سے قرض لے کر اپنا علاج کرایا۔ صحت یاب ہونے کے فورا بعد ہی ان کو اپنے وطن میں آنا پڑا۔ جن سے قرض لیا تھا ان کو جانتے بھی نہیں ہے اور یابطہ نمبر وغیرہ بھی نہیں ہے۔ قرض چکانے کی کیا صورت ہوگی یا اور کوئی صورت ہے جس سے معاف کرایا جاسکتا ہے۔

جواب

صورتِ مسؤلہ میں شخص مذکور پر لازم ہے کہ جس سے قرض لیا تھا حتی الامکان ان کو تلاش کرکے ان کی رقم ان تک پہنچانے کی کوشش کرے لیکن اگر ان کا پتہ چلانے کی کوئی صورت نہ ہو یا کوشش کے باوجود ان کا پتہ نہ چل سکے تو ان کی رقم ان کی طرف سے صدقہ کردے۔
:الفتاوى الهندية (2/308)دار الکتب العلمیۃ
‌ويعرف ‌الملتقط ‌اللقطة في الأسواق والشوارع مدة يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك هو الصحيح، كذا في مجمع البحرين ولقطة الحل والحرم سواء، كذا في خزانة المفتين، ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين۔
:الفتاوی السراجیۃ (341) المعروفیۃ
اذا التقط یعرفھا سنۃ علی ابواب المساجد عفی الاسواق والشوارع۔
:تبیین الحقائق (4/212) دار الکتب العلمیۃ
( وعرف الی ان علم ان ربھا لا یطلبھا)…. او قال عندی شی ء فمن سمعتموہ یسال شیئا۔

فتوی نمبر

واللہ اعلم

)

(

متعلقہ فتاوی

21

/

85

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس