بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

مسنون اعتکاف میں بالائی منزل کےلیے مسجدسےخارج سیڑھیاں استعمال کرنا

سوال

ایک مسجددومنزلہ ہے،نمازیں نچلےحصےمیں ہوتی ہیں جبکہ لوگ رمضان المبارک میں اعتکاف اوپر والی منزل میں کرتےہیں اوراس منزل کی سیڑھیاں مسجد سےخارج ہیں کیانمازوں کےلیےمعتکفین کابالائی حصہ سےتحتانی حصّہ کی جانب آنےجانے کی وجہ سےاعتکاف ختم تونہیں ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جماعت کےساتھ نمازکی ادائیگی کےلیےمسجد سےخارج سیڑھیوں کااستعمال کرناجبکہ اتصال ِ صفوف کی رعایت کرتےہوئےاوپرکی منزل میں نماز اداکرنا ممکن بھی ہو تویہ بلاعذرمسجد سے نکلنا ہےاوراسی طرح نمازکی ادائیگی کےبعدمسجدسےمحض اپنےحجرےمیں جانے کےلئے تحتانی حصّےسےنکل کر بذریعہ خارج مسجد فوقانی حصےمیں جانابغیرعذرکےمسجد سےنکلناہےاورامام ابوحنیفہ کے قول کےمطابق ایک لمحے کےلیےبھی بلاضرورت مسجد سےنکلنامفسدِ اعتکاف ہےاورفتویٰ بھی اسی قول پر ہے،اس مفتی بہ قول کے موافق جب اس طورسےمسجدسےباہرنکلناپایاگیاتواعتکاف فاسد ہونا چاہیئے،مگرچونکہ انتظامیہ نےاپنی غفلت کی وجہ سے سابقہ معتکفین کواطلاع نہیں دی ،نیزصاحبین کےقول کی وجہ سےگنجائش بھی معلوم ہوتی ہےاس لئے ان سابقہ معتکفین کےاعتکاف کوتواس عذرکی وجہ سےفاسدنہیں کہا جائےگا۔ البتہ انتظامیہ اپنی اس کوتاہی پرتوبہ واستغفار کرےاورآئندہ معتکفین کے اعتکاف کو فاسد ہونے سے بچانے کےلیے درج ذیل تدابیرمیں سےکوئی تدبیر اختیارکریں۔
نمبر ۱۔ اعتکاف کاانتظام مسجد کےنیچےوالےحصّےمیں کریں ۔
نمبر ۲۔ سیڑھیوں کومسجدکی حدودمیں داخل کرلیں۔
نمبر ۳۔ اعتکاف کےایام میں نمازِپنجگانہ باجماعت اوپرکی منزل میں اداکریں۔

بدائع الصنائع، علاء الدين الكاساني(م 587هـ)(2/ 115) دار الكتب العلمية
لو صعد المئذنة لم يفسد اعتكافه بلا خلاف وإن كان باب المئذنة خارج المسجد؛ لأن المئذنة من المسجد. ألا ترى أنه يمنع فيه كل ما يمنع في المسجد من البول ونحوه ولا يجوز بيعها فأشبه زاوية من زوايا المسجد
البحر الرائق ، ابن نجيم المصري (م 970هـ) (2/529 ) رشيدیة
وفي فتاوى قاضي خان والولوالجي وصعود المئذنة إن كان بابها في المسجد لا يفسد الاعتكاف وإن كان الباب خارج المسجد فكذلك في ظاهر الرواية قال بعضهم هذا في المؤذن؛ لأن خروجه للآذان يكون مستثنى عن الإيجاب أما في غير المؤذن فيفسد الاعتكاف والصحيح أن هذا قول الكل في حق الكل لأنه خرج لإقامة سنة الصلاة وسنتها تقام في موضعها فلا تعتبر خارجا
الدر المختار ،علاء الدين الحصكفي(م: 1088هـ)(3/500 ) رشيدیة
 وحرم عليه أي على المعتكف اعتكافا واجبا۔۔۔ الخروج إلا لحاجة الإنسان طبيعية كبول وغائط وغسل لو احتلم ولا يمكنه الاغتسال في المسجد كذا في النهر أو شرعية كعيد وأذان لو مؤذنا وباب المنارة خارج المسجد
رد المحتار،ابن عابدين الشامي(م 1252هـ)(2/502 ) رشيدیة
 قوله لو مؤذناهذا قول ضعيف والصحيح أنه لا فرق بين المؤذن وغيره كما في البحر والإمداد ح قوله وباب المنارة خارج المسجد أما إذا كان داخله فكذلك بالأولى۔۔۔قلت: بل ظاهر البدائع أن الأذان أيضا غير شرط فإنه قال: ولو صعد المنارة لم يفسد بلا خلاف وإن كان بابها خارج المسجد لأنها منه لأنه يمنع فيها من كل ما يمنع فيه من البول ونحوه فأشبه زاوية من زوايا المسجد اهـ لكن ينبغي فيما إذا كان بابها خارج المسجد أن يقيد بما إذا خرج للأذان لأن المنارة وإن كانت من المسجد، لكن خروجه إلى بابها لا للأذان خروج منه بلا عذر
 بدائع الصنائع، علاء الدين الكاساني(م: 587هـ) (2/ 115)دارالكتب العلمية
فإن خرج من المسجد لغير عذر؛ فسد اعتكافه في قول أبي حنيفة وإن كان ساعة، وعند أبي يوسف ومحمد لا يفسد حتى يخرج أكثر من نصف يوم 

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس