بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

مسجد کی جانب آمد ورفت کے لیے راستہ کی تعیین

سوال

ایک بستی جس کا رقبہ 2 ایکڑ ہے، اس میں 9 گھر ہیں اور اس بستی کے چاروں طرف سرکاری جنگل کی جگہ ہے اس رقبے میں نماز پڑھنے کے لیے تقریباً 100 سال پہلے ایک مکین نے ایک مسجد تعمیر کی تھی۔ اس مسجد میں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی امام اور موذن مقرر ہے اور نہ ہی کبھی اس مسجد کے ساتھ غسل ، وضو اور استنجا کی جگہ تعمیر ہوئی ہے۔
مسجد صرف باجماعت نماز کے لیے یا انفرادی نماز پڑھنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ تعمیر شدہ مکانات کے رہائشی اس مسجد میں جانے کے لیے راستہ مختلف لوگوں کی ملکیتی زمین میں سے استعمال کرتے ہیں جوکہ بغیر تعمیر کے موجود ہے۔
بعد میں ایک شخص نے 9 میں 5 گھر اور غیر تعمیر شدہ زمین مختلف لوگوں سے خرید لی جس کا کل رقبہ تقریبا سوا ایکڑ ہے۔ اب مسجد کے چاروں اطراف ایک شخص کا ملکیتی رقبہ ہے۔ اس زمین کے خریدار نے اپنے خرید کردہ رقبہ پر اپنی ضرورت کی غرض سے چار دیواری کا ارادہ کیا ہے۔
اب آیا کہ یہ ملکیتی رقبے کا رہائشی باقی چار مکانات کے رہائشیوں کے لیے اپنے ملکیتی رقبے میں سے راستہ دینے کا پابند ہے یا کہ باقی چار مکانات کے رہائشی جو کہ پونے ایکڑ رقبے کے مالک بھی ہیں، وہ اپنے لیے اپنے رقبے میں علیحدہ مسجد تعمیر کریں کیونکہ پرانی تعمیر شدہ مسجد ایک شخص کی ملکیتی خرید رقبہ کی چار دیواری کے اندر آچکی ہے ۔
نوٹ : اس معاملے میں باقی چار میں سے دو رہائشیوں کا مسجد کے لیے راستے کا مطالبہ اس نئے مکین ( جس کے رقبے کے درمیان میں مسجد آگئی ہے) کے لیے مسجد کے امور( غسل، وضو اور استنجا ) کی تعمیر اور نقشہ وغیرہ کی غرض سے دخل اندازی کا سامنا ہے۔

جواب

ذکر کردہ صورت میں مسجد مذکور بدستور مسجد کے حکم میں ہے۔ اگر مسجد کے لئے پہلے سے کوئی راستہ متعیین نہیں ہے تو اب مسجد کے لئ راستہ کا بندوبست کرنا شخص مذکور ( جس کی ملکیتی زمین کے درمیان مسجد آچکی ہے) کے ذمہ لازم ہے لہذا اسے چاہیے کہ نیک نیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسجد کی جانب آمدورفت کے لئے راستہ متعین کرے۔ باقی اہل محلہ کو بھی اس معاملے میں نرمی سے کام لینا چاہئے تاہم واضح رہے کہ اہل محلہ کا اپنی ذاتیات کی بنا پر شخص مذکور کی ملکیت میں اس کی اجازت کے بغیر دخل اندازی کرنا شرعاً درست نہیں۔
البحر الرائق (٢٧٠/٥) دار الكتاب الإسلامي:
جعل وسط داره مسجدا  و أذن للناس في الدخول والصلاة فيه إن شرط معه الطريق صار مسجدا  في قولهم وإلا فلا عند أبي حنيفة وقالا يصير مسجدا ويصير الطريق من حقه من غير شرط.
وفيه أيضا ( ٣٦٩/٥) دار الكتاب الإسلامي:
لأن العرف جار بالإذن في الصلاة على وجه العموم والتخلية بكونه وقفا على هذه الجهة.
وفيه أيضا (٣٨/٥) دار الكتاب الإسلامي:
وبالصلاة بجماعة يقع التسليم بلا خلاف حتى إنه إذا بنى مسجدا  و أذن للناس بالصلاة فيه جماعة فإنه يصير مسجدا.
فتاوی دار العلوم دیوبند (۱۳ / ۲۱۶ ۲۱۷) مکتبۃ العلم، لاہور:

(ب) اور” وسط دارہ” سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص نے اپنے گھر کے اندر مسجد بنائی یا کسی حصہ دار کو مسجد بنادیا ، اور وقف کر دیا تو وہ مسجد ہو جاتی ہے۔ اور راستہ اس کا خود بخود لازم ہو جائے گا۔ فقط ۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس