بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

مسجد میں درسگاہیں اور رہائش رکھنے کی شرعی حیثیت

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: ہمارے مدرسہ کی ابتداء مسجد سے ہوئی اس وقت تک ہماری مدرسہ کی ملکیتی جگہ کوئی نہ تھی ۔ اب الحمد للہ مدرسہ کا ایک ملکیتی مکان ہے،نیز ایک عاریتی مکان ہے اور مسجد کے رقبہ میں کچھ حصہ خارج از مسجد ہے جس میں شعبہ امتحانات، دفتر تعلیمات، کمپیوٹر روم، رہائش گاہ اورمطبخ ومطعم اور کتب خانہ قائم ہے۔ آخر الذکر دو امور کے لئے مسجد کی چھت کا کچھ حصہ استعمال ہوتاہے۔
وضاحت طلب امر یہ ہے کہ مسجد میں اجرت کے ساتھ تعلیم دینا اور طلباجوکہ غریب الدیار ہیں ان کا قیام وطعام مسجد میں ہونامکمل یاجزوی طورپرحکم ممانعت میں برابر ہیں یا اشد واہون کا درجہ ہے۔
نیز امام وخطیب کے ذمہ نماز اور جمعہ وعیدین کے قیام کی ذمہ داری کےساتھ یہ بھی ذمہ ہوتاہے کہ انہوں نے محلہ کےبچوں کو قرآن پاک پڑھاناہوتاہے/درسِ قرآن دیناہوتاہے/جمعہ اورعیدین میں وعظ/بیان/تقریر(دین کی تعلیم) کرنی ہوتی ہے اور تقرری کے وقت یہ بات انتظامیہ کی طرف سے واضح کردی جاتی ہے۔ غرض یہ کہ حبسِ وقت کی اجرت میں ان امور کاعوض بھی شامل ہوتاہے۔ یہ دین کی خدمت عوام کےلئے ہے اور مدرسہ میں حبسِ وقت کی اجرت لے کر پڑھانے والا خواص مسجد میں تعلیم بلا شرائط کیوں نہیں دے سکتا۔ کیاعوام کو تعلیم دینے والا معلم بھی انہی شرائط کا پابند ہوگا۔
نیز ہمارے موجودہ بڑوں اور بزگوں کے مدارس وجامعات میں بھی درسِ نظامی کے (بالخصوص درجات علیا کے)اسباق مسجد میں ہیں جبکہ ان کے پاس جگہ میں وسعت بھی ہے۔
ہمارے ادارے کا جوملکیتی مکان ہے اس کی درس گاہوں کو اگر اقامت گاہ بھی بنایاجائے تو درس گاہ کا ماحول نہیں رہے گا جبکہ حال ماحول مؤثر ومؤید ہوتاہے۔حصولِ مقصد میں اور عاریتی مکان میں اقامت گاہ بنائیں تو اس کےلئے معقول خرچ درکارہے، جس کا مستقبل معلوم نہیں پھر اس پر خرچ کیاہوا پیسہ جوکہ دینے والوں کی طرف سے صدقہ جاریہ ہوتاہے بعد ختم مدت عاریت اس سے انتفاع ممکن نہیں وہ صدقہ جاریہ نہ رہے گا۔نیز تمام طلبہ کے سامان بستر وغیرہ رکھنے کا انتظام حسبِ درجات اس مکان میں فی الوقت ممکن نہیں۔ تو اس صورتِ حال میں مسجد کی عمارت کو بقدرِ ضرورت کن شرائط کےساتھ رہائش کے لئے استعمال کر سکتے ہے۔

جواب

واضح رہے کہ قران وحدیث اور فقہا کی نصوص میں غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ مسجد کا اصل مقصد “اللہ کی عبادت” ہے یعنی اس میں نماز ،ذکر ، تلاوتِ قرآن اور اعتکاف کیاجائےاوریہ مقصد کسی بھی حال میں فوت نہیں ہوناچاہئے۔ اسی وجہ سے مسجد کا ادب واحترام ،صفائی ستھرائی کا خصوصی حکم ہے۔ مسجد میں حرام تو درکناردیگر مباح کام کی بھی عمومی اجازت نہیں ، اسی بنا پر مسجد میں کھانا پینا،سونا اور خریدوفروخت، نیز دیگر دنیوی اور مالی معاملات اور باتیں ممنوع ہیں۔ البتہ مجبوری اور ضرورت کے پیشِ نظر جہاں شریعت نے اجازت دی ہے وہاں شرائط کی پاسداری ضروری قرار دی ہے۔ چناچہ معاوضہ لے کر مسجد میں تعلیم دینا مالی معاملہ ہے ، جس کی وجہ سے صرف مجبوری اور شدید ضرورت کے وقت مسجد میں تعلیم وتعلم کی گنجائش ہے ۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں سب سے بہتر یہ ہے کہ مسجد کو صرف نماز اور عبادت کےلئے خاص کیاجائے اور حتی الوسع اس کوشش میں رہیں کہ جلد از جلد درس گاہوں اور رہائش کےلئے مسجد سے باہر الگ انتظام ہو جائے، جب تک مکمل طور پر متبادل انتظام نہ ہو تو جتنا بآسانی ممکن ہو سکے مسجد کو مذکورہ امور سے فارغ کیاجائے۔ مسجد میں اجرت کے ساتھ تعلیم دینا یامستقل رہائش رکھ کے سونایا کھانا پینا دونوں امور مسجد میں اپنی شناعت اور قباحت کی وجہ سے ناجائز ہیں، دونوں کی اجازت بوقت ضرورت اور بقدر ضرورت ہے۔ اس لئے منتظیمین کو جس میں آسانی ہو اس کو پہلے کرلیں اور دوسرےکےلئے کوشش جاری رکھیں، البتہ مسجد میں مندرجہ بالا امور کو انجام دینے کےلئے درج ذیل شرائط کی رعایت ضروری ہے۔ اگر ان شرائط کی رعایت نہ کی جائے تو مسجد کا مقصد فوت ہوجائےگا۔
نمبر1-نمازیوں اور عبادت کرنے والوں کی عبادت میں خلل واقع نہ ہو اور ان کواپنی نماز ،اورعبادت ادا کرنے میں کوئی اذیت اور پریشانی نہ ہو۔
نمبر2-مسجد کے تقدس، ادب واحترام اور صفائی ستھرائی کی مکمل رعایت ضروری ہے۔
نمبر3- مسجد کو مستقل رہائش گاہ اور آرام گاہ نہ بنایا جائے۔
نمبر4-کمسن اوربے شعور بچوں کومسجد میں سلانا جائز نہیں۔
نمبر5-پڑھنے والے بچے سمجھ دار ہوں مسجد کا احترام کریں، اس کو گندا اور ناپاک نہ کریں۔
نمبر6-بہتر یہ ہے کہ جب بھی مسجد میں تعلیم کے لئے بیٹھیں تو اعتکاف کی نیت کریں۔اور شور وشغب سے گریز کریں۔
نمبر7- تعلیم اور قیام وطعام کے لئے کسی دوسری جگہ پر انتظام کی کوشش جاری رکھی جائے، انتظام ہوتے ہی مسجد میں تعلیم کا سلسلہ ختم کیاجائے۔
نمبر8 کے علاوہ کوئی ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو مسجدمیں مذکورہ امورکا سلسلہ جاری کرنا شرعًا مکروہ(ناجائز)ہوگا۔
صحيح البخاري(1/ 96)
عن عبيد الله، قال: حدثني نافع، قال: أخبرني عبد الله بن عمر، «أنه كان ينام وهو شاب أعزب لا أهل له في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم»۔
سهل بن سعد، قال: جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بيت فاطمة فلم يجد عليا في البيت، فقال: «أين ابن عمك؟» قالت: كان بيني وبينه شيء، فغاضبني، فخرج، فلم يقل عندي فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لإنسان: «انظر أين هو؟» فجاء فقال: يا رسول الله، هو في المسجد راقد، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مضطجع، قد سقط رداؤه عن شقه، وأصابه تراب، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسحه عنه، ويقول: «قم أبا تراب، قم أبا تراب»۔
السنن الكبرى للبيهقي (2/ 624)
 عن طلحة النضري قال: قدمت المدينة مهاجرا وكان الرجل إذا قدم المدينة فإن كان له عريف نزل عليه، وإن لم يكن له عريف نزل الصفة، فقدمتها وليس لي بها عريف فنزلت الصفة۔
شرح السنة للبغوي (2/ 379)
عن عبيد الله، حدثني نافع، أخبرني عبد الله، أنه كان «ينام وهو شاب أعزب لا أهل له، في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم» وقد رخص قوم من أهل العلم في النوم في المسجد. وقال ابن عباس: لا تتخذوه مبيتا ومقيلا، وذهب قوم إلى هذا۔
مصنف عبد الرزاق الصنعاني (1/ 422)
عن جابر بن عبد الله قال: أتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن مضطجعون في مسجده فضربنا بعسيب كان في يده، وقال: «قوموا لا ترقدوا في المسجد»۔
سنن ابن ماجه (1/ 248)
عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، أن يعيش بن قيس بن طخفة، حدثه عن أبيه وكان من أصحاب الصفة قال: قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: «انطلقوا» فانطلقنا إلى بيت عائشة، وأكلنا وشربنا، فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن شئتم نمتم هاهنا، وإن شئتم انطلقتم إلى المسجد» قال: فقلنا: بل ننطلق إلى المسجد۔
التوضيح لشرح الجامع الصحيح (9/ 26)
جواز النوم في المسجد لقوله: (وَكُنْتُ أَنَامُ فِي المَسْجِدِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ – صلى الله عليه وسلم -). وفي رواية: أعزب. ولا كراهة فيه عند الشافعي.قَالَ الترمذي: وقد رخص قوم من أهل العلم فيه. وقال ابن عباس: لا تتخذه مبيتًا  ومقيلا. وذهب إليه قوم من أهل العلم.  قَالَ ابن العربي: وذلك لمن كان له مأوى، فأما الغريب فهي داره، والمعتكف فهو بيته، ويجوز للمريض أن يجعله الإمام في المسجد إذا أراد افتقاده، كما كانت المرأة صاحبة الوشاح ساكنة في المسجد، وكما ضرب الشارع قبة لسعدٍ في المسجد حَتَّى سأل الدم من جرحه. ومالك وابن القاسم يكرهان المبيت فيه للحاضر القوي، وجوَّزه ابن القاسم للضعيف الحاضر. وقال بعض المالكية: من نام فاحتلم ينبغي أن يتيمم لخروجه منه۔
فتح الباري لابن رجب (3/ 264)
عن سعد بن أبي وقاص، أن النبي – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – خرج على ناس من أصحابه – وهم رقود في المسجد -، فقال: ((انقلبوا؛ فإن هذا ليس بمرقد)) .ذكره الأثرم،…. والقسم الثاني: أن يتخذ مقيلا ومبيتا على الدوام: فكرهه ابن عباس وقال: – مرة -: إن كنت تنام فيه لصلاة فلا بأس۔
فيض الباري على صحيح البخاري (2/ 67)
 أنه كان ينام وهو شاب أعزب لا أهل له فى مسجد النبى – صلى الله عليه وسلم … قلت: ولا تمسك فيه لأن ابن عمر رضي الله عنه كان أحوج الناس، وأفقر من الغرباء، لم يكن له بيت ولا شيء، فإذا جاز للغريب أن ينام في المسجد فكيف به۔
الكوكب الوهاج شرح صحيح مسلم (1/ 442)
عن جابر- قال: جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن مضطجعون في المسجد، فضربنا بعسيب فقال: “أترقدون في المسجد؟ ! إنه لا يرقد فيه” قال: فأجفلنا وأجفل علي فقال: “تعال يا علي؛ إنه يحل لك من المسجد ما يحل لي، والذي نفسي بيده! إنك لذواد عن حوضي يوم القيامة” وهذا حديث منكر جدا. اهـ من “الميزان” ۔

فتاوی قاسمیہ(18/100) کیامسجد میں محلہ کےحافظ صاحب سوسکتےہیں؟

 معتکف،مسافراوراجنبی آدمی کےلئےمسجدمیں سونابلاکراہت جائزاوردرست ہے، اورمقامی آدمی کابغیراعتکاف اوربغیرعبادت کےارادےکےمحض سونےکےلئے عادت بنالینامکروہ ہے،   اگر حافظ صاحب اعتکاف اورتلاوت ِ قرآن، نماز یا دیگرعبادت کےارادے سےمسجد میں آتےہیں اوراسی ضمن میں روزانہ سوبھی جاتےہیں توکوئی حرج نہیں اوراس کاپتہ حافظ صاحب ہی سےمعلوم ہوسکتاہے،اگروہ یہ کہتےہیں،کہ میں اعتکاف کی نیت کرلیتاہوں توحافظ صاحب پرکوئی اعتراض واشکال نہیں ہوناچاہئے۔۔

کفایت المفتی (10/160) خادم کامسجدمیں مستقل رہائش اختیار کرنا

 اگریہ شخص مسجد کےمتعلقہ اشخاص میں سےہوکہ مسجد کی ضروریات اس سےوابستہ ہوں، مثلا: امام یامؤذن یاخادم ہو اوراس کےلئےرہنےکی اورکوئی جگہ میسرنہ ہواوراس کے رہنےسےنمازیوں کوتکلیف پیش نہ آئےاوروہ مسجدکےاحترام کاپورا لحاظ رکھےتو ان شرائط کےساتھ مسجدمیں قیام کی اجازت ہےاوراگردوسری جگہ سکونت کےلئے میسرہویامسجدسےغیرمتعلق ہواورمسافربھی نہ ہویااس کی رہائش سےنمازیوں کوتکلیف اورتنگی ہویامسجدکی بےادبی یاتوہین ہوتی ہویاتلویث وتکلیف لازم آتی ہوان صورتوں میں اس کواجازت نہیں ہے۔

احسن الفتاوی (6/448) طلبہ علم  کامسجد میں سونا 

مسجد کی بناء ذکرو عبادت کےلئےہے اس قسم کےکاموں کےلئےنہیں اس لئےعام حالات میں تو کسی کےلئےمسجدمیں سوناجائز نہیں، خواہ طالب علم ہو یاکوئی اور، اگر بامر مجبوری طلبہ کومسجد میں سوناپڑتاہے تو ان شرائظ کےساتھ اس کی گنجائش ہے۔

نمبر۱۔مسجد کےسوااورکوئی عارضی یامستقل قیام گاہ موجودنہ ہو، نہ متولی ومنتظم اس کاانتظام کرسکتےہوں۔

نمبر2-مسجد کےآداب کاپورا لحاظ رکھیں کہ شوروغوغا، ہنسی مذاق اورلایعنی گفتگو سےپرہیزکریں، صفائی کاپورا اہتمام رکھیں اوراعتکاف کی  نیت کرلیں۔

نمبر۳۔نمازیوں کوان سےکسی قسم کی ایذاء نہ پہنچے، اذان ہوتےہی اٹھ جائیں اورنمازوں کےبعدبھی جب تک لوگ سنن ونوافل  یا ذکروتلاوت وغیرہ میں مشغول ہوں ان کی عبادات میں خلل نہ ڈالیں۔

نمبر۴۔ طلبہ باریش یاکم از کم آدابِ مسجد سےواقف اورباشعور ہوں، کمسن بےشعور بچوں کومسجدمیں سلاناجائزنہیں۔

    الغرض ممکن حدتک اس سےبچنےکی کوشش کی جائے، مجبوری کی بات الگ ہے۔

الفتاوى الهندية (5/ 321)
ويكره النوم والأكل فيه لغير المعتكف، وإذا أراد أن يفعل ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف فيدخل فيه ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى أو يصلي ثم يفعل ما شاء، كذا في السراجية. ولا بأس للغريب ولصاحب الدار أن ينام في المسجد في الصحيح من المذهب، والأحسن أن يتورع فلا ينام، كذا في خزانة الفتاوى۔
رد المحتار،العلامة  ابن عابدين الشامي (م: 1252هـ)(1/ 661)سعيد
(قوله وأكل ونوم إلخ) وإذا أراد ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف، فيدخل ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى، أو يصلي ثم يفعل ما شاء فتاوى هندية۔
رد المحتار، العلامة  ابن عابدين الشامي (م: 1252هـ) (2/ 448)سعيد
(قوله وخص المعتكف بأكل إلخ) أي في المسجد والباء داخلة على المقصور عليه بمعنى أن المعتكف مقصور على الأكل ونحوه في المسجد لا يحل له في غيره، ولو كانت داخلة على المقصور كما هو المتبادر يرد عليه أن النكاح والرجعة غير مقصورين عليه لعدم كراهتهما لغيره في المسجد.  واعلم: أنه كما لا يكره الأكل ونحوه في الاعتكاف الواجب فكذلك في التطوع كما في كراهية جامع الفتاوى ونصه يكره النوم والأكل في المسجد لغير المعتكف وإذا أراد ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف فيدخل فيذكر الله تعالى بقدر ما نوى أو يصلي ثم يفعل ما شاء. اهـ۔
طرح التثريب في شرح التقريب (2/ 140)
[فائدة تنزيه المساجد عن البول وسائر النجاسات]
(الرابعة عشر) فيه أنه يجب تنزيه المساجد عن البول وسائر النجاسات، وهو كذلك إذا أدى ذلك إلى تلويثها بالنجاسة، فإن لم تتلوث كأن بال في إناء أو افتصد في إناء في المسجد فالأصح تحريم البول وكراهة الافتصاد دون تحريمه، وقد جزم النووي في شرح مسلم بكراهة الفصد في الإناء ولم يحك فيه خلافا وقال في الروضة في الاعتكاف تبعا للرافعي أن الأولى اجتنابه ولم يتعرض للكراهة وجزم البندنيجي بعدم جواز الفصد، والحجامة كالبول في الطست انتهى. وكذلك من على بدنه أو ثوبه نجاسة إذا أمن تلوث المسجد بها جاز دخوله، وإن خاف ذلك لم يجز. وأما الوضوء في المسجد فقال ابن المنذر أباحه كل من يحفظ عنه العلم إلا أن يتوضأ في مكان يبله ويتأذى الناس به، فإنه مكروه وحكى ابن بطال جوازه عن أكثر أهل العلم وحكى عن مالك وسحنون كراهته تنزيها للمسجد وحكى الرافعي في الاعتكاف عن صاحب التمهيد أنه لا يجوز نضح المسجد بالماء المستعمل؛ لأن النفس قد تعافه وأقره عليه وتبعه النووي هنا وقال في الصلاة في الروضة في زوائده أنه لا بأس بالأكل،  لشرب، والوضوء فيه إذا لم يتأذى به الناس، وأنه يكره حمل الصنائع فيه وقال الرافعي في إحياء الموات: إن الجلوس في المسجد للبيع، والشراء والحرفة ممنوع منه إذ حرمة المسجد تأبى اتخاذه حانوتا. وفرق الشيخ عز الدين بن عبد السلام في الفتاوى الموصلية بين الحرف فقال: لا يجوز أن تعمل فيه صنعة خسيسة تزري به قال: وأما الكتابة وغيرها مما لا يزري، فإنه إنما يجوز بشرط أن لا يتبذل ابتذال الحوانيت، وهذه التفرقة حسنة وحكى القرطبي في المفهم عن مالك أن المساجد لا يفعل فيها شيء من أمور الدنيا إلا أن تدعوا ضرورة أو حاجة إلى ذلك فيتقدر بقدر الحاجة فقط كنوم الغريب فيه وأكله۔
(مسجد میں عقود سے متعلق نصوص)
سنن الترمذي ت بشار (2/ 602)
 عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا رأيتم من يبيع أو يبتاع في المسجد، فقولوا: لا أربح الله تجارتك، وإذا رأيتم من ينشد فيه ضالة، فقولوا: لا رد الله عليك حديث أبي هريرة حديث حسن غريب. والعمل على هذا عند بعض أهل العلم كرهوا البيع والشراء في المسجد، وهو قول أحمد، وإسحاق، وقد رخص فيه بعض أهل العلم في البيع والشراء في المسجد۔
صحيح مسلم (1/ 397)
 عن أبي عبد الله، مولى شداد بن الهاد أنه سمع أبا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سمع رجلا ينشد ضالة في المسجد فليقل لا ردها الله عليك فإن المساجد لم تبن لهذا»۔
سنن ابن ماجه (1/ 247)
 عن واثلة بن الأسقع، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «جنبوا مساجدكم صبيانكم، ومجانينكم، وشراءكم، وبيعكم، وخصوماتكم، ورفع أصواتكم، وإقامة حدودكم، وسل سيوفكم، واتخذوا على أبوابها المطاهر، وجمروها في الجمع»۔
سنن ابن ماجه (1/ 252)
 عن سليمان بن بريدة، عن أبيه، قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رجل: من دعا إلى الجمل الأحمر؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «لا وجدته، إنما بنيت المساجد لما بنيت له»۔
 (مسجد میں تعلیم بالمعاوضہ سے متعلق حوالہ جات )
العرف الشذي شرح سنن الترمذي (3/ 66)
يجوز للمعتكف بلا إحضار سلعة، وقال ابن وهبان في منظومته: إن اعتياد المرور بمسجد فسق والتعليم للأطفال فيه غير جائز، وقال الشارح: هذا إذا كان يعلم على الأجرة وإلا فلا:  …  ويفسق معتاد المرور بجامع … ومن علّم الأطفال فيه ويؤزر۔
العرف الشذي شرح سنن الترمذي (1/ 323)
رخص الفقهاء الإيجاب والقبول للمعتكف في المسجد بلا حضور المبيع، وأما إنشاد الضالة فله صورتان
أحدهما: إن ضل شيء في خارج المسجد وينشده في المسجد لاجتماع الناس فهو أقبح وأشنع، وأما لو ضل في المسجد فيجوز الإنشاد بلا شغب، وأما الأشعار ففي كتاب الطحاوي جوازها في المسجد أي لتحصيل الأدب واللغة بشرط أن لا يتخذ لجة، ويفصل شيء في الأشعار الأدبية في فتح القدير، أيضاً أقول: من يتذاكر الفلسفة في المساجد كما هو دأب طلبة العصر يقال له لا علمك الله۔
رد المحتار (6/ 428)
قلت: بل في التتارخانية عن العيون جلس معلم أو وراق في المسجد، فإن كان يعلم أو يكتب بأجر يكره إلا لضرورة وفي الخلاصة تعليم الصبيان في المسجد لا بأس به اهـ لكن استدل في القنية بقوله – عليه الصلاة والسلام – «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم»۔
البحر الرائق (5/ 270)
ويجوز الدرس في المسجد وإن كان فيه استعمال اللبود والبواري المسبلة لأجل المسجد لو علم الصبيان القرآن في المسجد لا يجوز ويأثم وكذا التأديب فيه أي لا يجوز التأديب فيه إذا كان بأجر وينبغي أن يجوز بغير أجر وأما الصبيان فقد قال النبي – صلى الله عليه وسلم – «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم» وكذا لا يجوز التعليم في دكان في فناء المسجد هذا عند أبي حنيفة وعندهما يجوز إذا لم يضر بالعامة۔
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (1/ 352)
 قال قاضي خان في فصل المسجد ويكره أن يخيط في المسجد لأن المسجد أعد للعبادة دون الاكتساب وكذا الوراق والفقيه إذا كتب بأجر أو المعلم إذا علم الصبيان بأجر وإن فعلوا بغير أجر فلا بأس به وعن محمد بن سلمة إذا قعد الرجل في المسجد خياطا يخيط فيه ويحفظ المسجد عن الصبيان والدواب لا بأس به. اهـ۔
الفتاوی البزازیۃ،للعلامۃ محمد بن محمد  البزازی(م:827ھ) المنقولۃ من النسخۃ المکتوبۃ من کتاب مؤلفہ فی سنۃ أربع وتسع مائۃو کاتبہا عبد اللہ بن عمر،باب الکراہیۃ نوع  فی المسجد
وتعلیم الصبیان فیہ بلا أجر للأجر یجوز۔
خلاصة الفتاوى(1/229)
أما المعلم الذي يعلم الصبيان بأجرو إذا جلس في المسجد يعلم الصبيان لضرورة الحر وغيره لا يكره،  في نسخة القاضي الإمام وفي إقرار العيون جعل مسئلة المعلم كمسئلة الكاتب والخياط فإن كان يعلم حسبة لا بأس به وإن كان بأجر يكره إلا إذا وقع  ضرورة

خیر الفتاوی(6/514) ضرورت کےوقت تنخواہ دار معلم بھی مسجد میں تعلیم دےسکتاہے

 تنخواہ دارمدرس کا بلاضرورت مسجد میں تعليم دینامکروہ ہے، البتہ الگ جگہ مہیانہ ہونےکی صورت میں مسجد میں تعلیم کی اجازت ہے ۔۔۔ مسجد میں عند الضرورت سونےکی بھی اجازت ہے خصوصا مسافرطلباء کےلئے۔

فتاوی محمودیہ(14/602) تنخواہ لے کر مسجد میں تعلیم دینا

جو شخص مصالحِ مسجد کے لئے مثلا حفاظتِ مسجد یا دوسری جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مجبورا مسجد میں بیٹھ کر تعلیم دے اس کو جائز ہے۔ اور محض پیشہ بناکر مسجد میں بیٹھنا اور تعلیم دینا ناجائز ہے اور احترامِ مسجد کے خلاف ہے۔

امداد الاحکام(1/441)جس مدرس کو تنخوا مدرسہ سے ملتی ہو

سوال: جس مدرس کو تنخوا مدرسہ سے ملتی ہے اور بچوں سے مشاہرہ نہیں ملتا، تو وہ تعلیم کا کا م مسجد میں کر سکتا ہے یا نہیں؟

جواب: ایسے مدرس کو بھی تعلیم کا  کام مسجد میں مکروہ ہے، البتہ اعتکات کی نیت کرکے بیٹھا کرے تو درست ہے، اور اعتکاف تھوڑی دیر کا بھی ہوسکتاہے۔

جواہر الفقہ(3/112)مسجد میں بچوں کو پڑھانا

 یہاں تک کہ حدیث اور تفسیراور فقہ کے مسائل بھی اجرت پر لکھنامسجد میں ناجائز ہے۔بچوں کو قرآن شریف وغیرہ اجرت لے کر مسجد میں پڑھاناباتفاق ناجائز ہے۔اور بلااجرت محض ثواب کےلئے بعض فقہا نے اجازت دی ہے لیکن بعض فقہا اس کو بھی جائز نہیں سمجھتے کیوں کہ بحکم حدیث مسجد میں بچوں کا داخل کرنا ہی ناجائز ہے۔

احسن الفتاوی(6/458) تنخواہ دار مدرس کا مسجد میں پڑھانا

تنخواہ دار مدرس  کامسجد میں پڑھانا جائز نہیں ۔۔۔اگر مسجد سے باہر کوئی جگہ نہ ہو تو مسجد میں پڑھانا بشرائط ذیل جائز ہے

نمبر۱۔ مدرس تنخواہ کی ہوس کی بجائے گزر اوقات کےلئے بقدر ضرورت وظیفہ پر اکتفاکرے۔

نمبر۲۔نماز اور ذکروتلاوت ِقرآن وغیرہ عبادات میں مخل نہ ہو۔

نمبر۳۔مسجد کی طہارت ونظافت اور ادب واحترام کا پورا خیال رکھاجائے۔

نمبر۴،کمسن اور ناسمجھ بچوں کو مسجد میں نہ لاجائے۔

(مسجد صرف عبادت کےلئے، سے متعلق حوالہ جات)

الصحيح لمسلم بن الحجاج القشيري (م: 261هـ) (1/ 236) دار إحياء التراث العربي
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تزرموه دعوه» فتركوه حتى بال، ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم دعاه فقال له: «إن هذه المساجد لا تصلح لشيء من هذا البول، ولا القذر إنما هي لذكر الله عز وجل، والصلاة وقراءة القرآن»
عمدة القاري للعلامة بدر الدين العينى (م: 855هـ)(3/ 126) دار إحياء التراث العربي
(فقال له: إن هذه المساجد لا تصلح لشيء من هذا البول، ولا القذر، وإنما هي لذكر الله والصلاة وقراءة القرآن)   السابع: فيه دليل على أن المساجد لا يجوز فيها إلا ذكر الله والصلاة وقراءة القرآن بقوله: (وإنما هي لذكر الله) ، من قص الموصوف على الصفة، ولفظ الذكر عام يتناول قراءة القرآن وقراءة العلم، ووعظ الناس والصلاة أيضا عام، فيتناول المكتوبة والنافلة، ولكن النافلة في المنزل أفضل، ثم غير هذه الأشياء: ككلام الدنيا والضحك واللبث فيه بغير نية الاعتكاف مشتغلا بأمر من أمور الدنيا ينبغي أن لا يباح، وهو قول بعض الشافعية، والصحيح أن الجلوس فيه لعبادة أو قراءة علم أو درس أو سماع موعظة أو انتظار صلاة أو نحو ذلك مستحب، ويثاب على ذلك، وإن لم يكن لشيء من ذلك كان مباحا، وتركه أولى
نيل الأوطار ، محمد بن علي الشوكاني (م: 1250هـ) (1/ 62) دار الحديث، مصر
 قوله: (إن هذه المساجد) . . . إلخ مفهوم الحصر مشعر بعدم جواز ما عدا هذه المذكورة من الأقذار، والقذى والبصاق ورفع الصوت والخصومات والبيع والشراء وسائر العقود وإنشاد الضالة، والكلام الذي ليس بذكر، وجميع الأمور التي لا طاع فيها، وأما التي فيها طاعة كالجلوس في المسجد للاعتكاف والقراءة للعلم وسماع الموعظة وانتظار الصلاة ونحو ذلك، فهذه الأمور وإن لم تدخل في المحصور فيه لكنه أجمع المسلمون على جوازها كما حكاه النووي فيخصص مفهوم الحصر بالأمور التي فيها طاعة لائقة بالمسجد لهذا الإجماع وتبقى الأمور التي لا طاعةفيها داخلة تحت المنع۔
 (اجرت علی الطاعات سے متعلق حوالہ جات)
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 656)
اتفقت النقول عن أئمتنا الثلاثة أبي حنيفة وأبي يوسف ومحمد أن الاستئجار على الطاعات باطل لكن جاء من بعدهم من المجتهدين من أهل التخريج والترجيح فأفتوا بصحته على تعليم القرآن للضرورة فإنه كان للمعلمين عطايا من بيت المال وانقطعت، فلو لم يصح الاستئجار وأخذ الأجرة لضاع القرآن وفيه ضياع الدين لاحتياج المعلمين إلى الاكتساب وأفتى من بعدهم أيضا من أمثالهم بصحته على الأذان والإمامة؛ لأنها من شعائر الدين فجوزوا الاستئجار عليهما للضرورة أيضا فهذا ما أفتى به المتأخرون عن أبي حنيفة وأصحابه لعلمهم بأن أبا حنيفة وأصحابه لو كانوا في عصرهم لقالوا بذلك ورجعوا عن قولهم الأول، وقد أجمعت أئمة المتون والشروح والفتاوى على نقلهم بطلان الاستئجار على الطاعات إلا فيما ذكر وعللوا ذلك للضرورة۔
رد المحتار على الدر المختار (6/ 55)
(قوله ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن إلخ) قال في الهداية: وبعض مشايخنا – رحمهم الله تعالى – استحسنوا الاستئجار على تعليم القرآن اليوم لظهور التواني في الأمور الدينية، ففي الامتناع تضييع حفظ القرآن وعليه الفتوى اهـ، وقد اقتصر على استثناء تعليم القرآن أيضا في متن الكنز ومتن مواهب الرحمن وكثير من الكتب، وزاد في مختصر الوقاية ومتن الإصلاح تعليم الفقه، وزاد في متن المجمع الإمامة، ومثله في متن الملتقى ودرر البحار.وزاد بعضهم الأذان والإقامة والوعظ، وذكر المصنف معظمها، ولكن الذي في أكثر الكتب الاقتصار على ما في الهداية، فهذا مجموع ما أفتى به المتأخرون من مشايخنا وهم البلخيون على خلاف في بعضه مخالفين ما ذهب إليه الإمام وصاحباه، وقد اتفقت كلمتهم جميعا في الشروح والفتاوى على التعليل بالضرورة وهي خشية ضياع القرآن كما في الهداية، وقد نقلت لك ما في مشاهير متون المذهب الموضوعة للفتوى فلا حاجة إلى نقل ما في الشروح والفتاوى، وقد اتفقت كلمتهم جميعا على التصريح بأصل المذهب من عدم الجواز، ثم استثنوا بعده ما علمته، فهذا دليل قاطع وبرهان ساطع على أن المفتى به ليس هو جواز الاستئجار على كل طاعة بل على ما ذكروه فقط مما فيه ضرورة ظاهرة تبيح الخروج عن أصل المذهب من طرو المنع، فإن مفاهيم الكتب حجة ولو مفهوم لقب على ما صرح به الأصوليون بل هو منطوق، فإن الاستثناء من أدوات العموم كما صرحوا به أيضا۔

کفایت المفتی(11/526)امامت کی اجرت کاحکم

 آج کل مساجدکےاماموں،مؤذنوں یااستاذوں کااجرتِ امامت یااذان یااجرتِ تعلیم لیناتویہ مسئلہ مجتہدینِ امت میں مختلف فیہ تھا۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی عبادت کی اجرت لینےدینے کونا جائز  فر ماتے تھے اوردو سرےائمہ جائز فرماتےتھے۔متاخیرین خنفیہ نےبھی دوسرے ائمہ کےقول کےموافق تعلیم وامامت واذان کی اجرت کےجوازکافتوی دےدیاہے۔کیونکہ بغیر اجرت ان چیزوں کی بقااورنظام کاقیام مشکل ہے۔

فتاوی محمودیہ(17/90)وعظ پر اجرت

استیجار علی الطاعات اصالۃ ناجائز ہے، مگرمتاخرین مجتہدین نےحسب اجتہاد ضرورتِ شرعیہ کالحاظ رکھتے ہوئے بعض طاعات کومستثنی کیاہے، ان میں سےوعظ بھی ہے۔ اوروجہ جواز “حبس” کوقرارنہیں دیا، بلکہ “ضرورتِ شرعیہ” کوقراردیاہے،اگرسلسلہ وعظ بند ہوجائے تونقصان عظیم لازم آئےگا،کیونکہ ہرایک کےپاس نہ اس قدروقت ہے، نہ قدرت کہ مدارس میں داخل ہوکرباقاعدہ علم حاصل کرے

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس