بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مطلوبہ فتوی کے حصول کے لیے الفاظ منتخب کریں

عنوان کا انتخاب کریں

.

مسجد میں اچھی اور درمیانی درجے کی جوتیاں رہ جائیں ان کا کیا کیا جائے ؟

سوال

جو جوتیاں مسجد میں رہ جاتی ہیں ان میں اکثر قیمتی جوتیاں بھی ہوتی ہیں اب ان  جوتیوں کو ان لوگوں کو دے سکتے ہیں جنکی جوتیاں اٹھائی گئی ہیں حالانکہ وہ امیر لوگ ہوتے ہیں ۔اگرنہیں دے سکتےتوان کا کیا کریں جو کہ پڑی پڑی خراب ہوجاتی ہیں اورکتنی دیر تک انتظار کیا جاسکتا ہےاورکن کودےسکتے ہیں؟

جواب

اچھی اور درمیانی حالت میں مسجد میں پڑی رہ جانے والی جوتیاں “لقطہ”  ہیں۔  ان کے بارے میں اُس وقت تک اعلان کرنا ضروری ہے جب تک مالک کے آنے کا یقین ہو ،اورجب اُس کے نہ آنے کا یقین ہوجائےتو اصل مالک کی طرف سے فقراء کو صدقہ کردی جائیں گی،اعلان کایہ طریقہ اختیار کیا جاسکتاہے کہ لقطہ  کی جوتیوں کےلئے الگ محفوظ جگہ  مقرر کردی جائے،جہاں ہر آدمی انہیں دیکھ سکتا ہو،اور اس جگہ نوٹس لگادیاجائے ۔جن لوگوں کی جوتیاں اٹھائی گئیں ہیں ان میں سے فقراءکو اچھی اور درمیانی حالت  کی جوتیاں دے سکتے ہیں،البتہ اگر مسجد میں پڑی رہ جانے والی جوتیاں پھٹی پرانی ہوں تو ان کو استعمال کرنا ہر ایک کےلئے مباح ہے ، بشرطیکہ پہلی جوتیاں چوری  ہونے کا یقین ہو ، اگر غلطی یا  اندھیرے کی وجہ سے جوتیاں تبدیل ہوئی ہیں تو پھٹی پرانی جوتیاں بھی مذکورہ طریقہ کے مطابق اعلان کے بعد فقراء کو صدقہ کی جائیں گی۔

 

الفتاوى الخانية علی هامش الهندية، قاضي خان (م:592هـ)(3/395) رشیدیة کوئتة
امراة وضعت ملائتها فجاءت امراة اخری ووضعت ملائتها، ثم جاءت الأولی وأخذت ملاءة الثانیة وذهبت، لاینبغی للثانیة أن تنتفع بملائة  الأولی؛ لانه انتفاع بملک الغیر، فان أرادت أن تنتفع بها، قالوا: ینبغی أن تتصدق بهذه الملاءة علی ابنتها إن کانت فقیرة علی نیة أن یکون الثواب لصاحبتها إن رضیت، ثم تهب الابنة الملائة منها، فیسعها  الانتفاع بها؛ لأنهابمنزلة اللقطة فکان سبیلها التصدق۔
رد المحتار،العلامة ابن عابدين الشامي(م:1252هـ)(6/438) رشیدیة کوئتة:
وكذلك الجواب في المكعب إذا سرق اهـ وقيده بعضهم بأن يكون المكعب الثاني كالأول أو أجود، فلو دونه له الانتفاع به بدون هذا التكلف؛ لأن أخذ الأجود وترك الأدون دليل الرضا بالانتفاع به، كذا في الظهيرية، وفيه مخالفة للقطة من جهة جواز التصدق قبل التعريف وكأنه للضرورة اهـ ملخصا. قلت: ما ذكر من التفصيل بين الأدون وغيره إنما يظهر في المكعب المسروق، وعليه لا يحتاج إلى تعريف؛ لأن صاحب الأدون معرض عنه قصدا فهو بمنزلة الدابة المهزولة التي تركها صاحبها عمدا بل بمنزلة إلقاء النوى وقشور الرمان. أما لو أخذ مكعب غيره وترك مكعبه غلطا لظلمة أو نحوها ويعلم ذلك بالقرائن فهو في حكم اللقطة لا بد من السؤال عن صاحبه بلا فرق بين أجود وأدون، وكذا لو اشتبه كونه غلطا أو عمدا لعدم دليل الإعراض، هذا ما ظهر لي فتأمله۔

دارالافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ

جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ  کا ایک نمایاں شعبہ دارالافتاء ہے۔ جو کہ عرصہ 20 سال سے عوام کے مسائل کی شرعی رہنمائی کی خدمات بخوبی  سرانجام دے رہا ہے

سوال پوچھیں

دار الافتاء جامعہ احسان القرآن والعلوم النبویہ سے تحریری جوابات  کے حصول کے لیے یہاں کللک کریں

سوشل میڈیا لنکس