بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مسئلہ دریافت کر نے کے آداب اورضروری ہدایات

عمومی ہدایات 

نمبر۱۔ہر مسلمان پر لاز م ہے کہ ہمیشہ شرعی مسئلہ  ایسے مستند مفتی اور عالم سے پوچھیں ، جس کے علم ،دیانت و عدالت اور افتاء کے اہل ہو نے کے بارے میں آپ جانتے ہوں ۔اگر دو مفتیوں کے درمیا ن اختلاف رائے ہو جائےاور وہ دونوں ہر لحاظ سے برابر درجہ رکھتے ہو ں  تو جس پر قلبی اطمینان ہو اس پر عمل کر لیا جائے، کسی کی تحقیر و تنقیص نہ ہو۔ ( ادب المفتی و المستفتی ۔ اصول الافتاء و آدابہٗ )
نمبر ۲۔ پہلے طے کرلیں کہ سوال و جواب  زبانی مطلوب ہے یا تحریری۔
نمبر۳۔ مقصودی بات سب سے پہلے بیان کریں۔ غیر ضروری باتوں سے اجتناب کریں۔
نمبر ۴۔ دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ مجیب (مسئلہ کا جواب دینے والے)کے دل میں حق  اور درست بات القاء فر مائے ۔
نمبر ۵۔ صرف عقیدے یاعملی زندگی سےتعلق رکھنے والے مسائل دریافت کریں۔فرضی،غیر ضروری ،فضول نوعیت ،اشخاص یا انتشار پھیلانے کی نیت سے مشہور اختلافی مسائل کے بارے میں پوچھنے سے گریز کریں۔ دار الافتاء سے اختلافی نوعیت ،فر قہ واریت اورباعثِ  انتشار ، مسائل  کا جواب نہیں دیا جاتا، اور نہ دارالافتا ان کے جواب دینےکا پابندہے ،کیونکہ یہ مفتی کے منصب  کے لائق نہیں ۔ 

تحریراً دستی یا ڈاکی سوالنامہ سے متعلق ہدایات

نمبر۱۔سوال مکمل ،واضح ،مختصراور جامع تحریر کریں ؛غیر ضروری تفصیل نہ لکھی جائے ۔
نمبر۲۔جلدی جواب کا مطالبہ ہرگز نہ کریں ۔ بعض اہم نو عیت کے سوالات کے جواب میں تحقیق کے لئے وقت در کار ہو تا ہے ۔یا سوالات کا ہجوم ہوتا ہے ، اس لئے جو وقت آپ کو جواب کی واپسی کا دیا جائے ، اسے قبول  کر یں ۔ ناگزیر وجوہات کے باعث یا مسائل کے غور طلب ہو نے کی وجہ سے جواب میں معمولی یا غیر معمولی تاخیربھی ہو سکتی ہے اور تحقیقی سوالا ت کے جواب میں تاخیر کا بھی قوی امکان ہے ۔ 
نمبر۳۔ایک وقت میں یا ایک سوالنامہ میں زیادہ سے زیادہ  تین سوال کریں ؛تاکہ دیگر لوگوں کے سوالا ت کے جوابات بھی دئیے جاسکیں ۔ایک سوالنامہ میں مختلف سوالوں کی صورت میں ہر سوال علیحدہ نمبر کے تحت لکھیں ۔ 
نمبر۴۔قلم سے لکھنے میں تحریر صاف اور خوشخط ہونی چاہئے۔ 
نمبر۵۔دستی استفتاء(سوال ) دار الافتا استقبالیہ میں متعلقہ ذمہ دار کے پاس  جمع کرواکر رسید حاصل کریں ۔ اورواپسی پر  رسید لینا نہ بھولیں اور جواب وصول کرنے کے لئے رسید ہمراہ لائیں ۔ 
نمبر۶،فون نمبر ضرورلکھیں ، بسا اوقات سوال میں تنقیح (کسی وضاحت طلب بات )کی ضرورت ہو تی ہے ۔
نمبر۷۔سوالنامہ کے آخر میں نام ،گھر کاپتہ لکھیں ۔
نمبر۸۔  اچھا اور  بڑے سائز کاکاغذ استعمال فرمائیں۔
نمبر۹۔  جوابی لفافہ مع ڈاک ٹکٹ ضرور ہمراہ رکھیں،جوابی لفافہ پر اپنا واپسی پتہ ضرور صاف لکھیں ۔
نمبر۱۰۔ اصل سوالنامہ جمع کر ائیں ، سوال کی فوٹو کاپی کافی نہیں ۔
نمبر۱۱۔ عدالت میں زیرِ سماعت مقدمات سے متعلق دریافت طلب مسئلہ میں تمام عدالتی کا غذات سوال کے ہمراہ ارسال کریں ۔
نمبر۱۲۔جواب وصول کر نے کے لئےآنےسے پہلے احتیاطاً رابطہ کر لیں ،تاکہ جواب تیار نہ ہو نے کی وجہ سےآنے کی زحمت نہ ہو   ۔ 

ای میل ،واٹس ایپ کے ذریعہ سوالات سے متعلق ہدایات

نمبر۱۔ واٹس ایپ یا ای میل پر تحریری سوال بھیجنے کی صورت میں ضروری ہے کہ سوال کا فوٹو صحیح انداز میں لیا جائے یا اس کو سکین کر کے بھیجیں ۔تاکہ اس کو پڑھنا آسان ہواور اس کا پرنٹ درست آئے۔
نمبر۲۔  ای میل بکس یا کسی بھی پیج میں کمپوز کرنے کی صورت میں اردو فونٹک کی بورڈ (اردو رسم الخط) کا استعمال کریں ۔ 
نمبر۳۔سوال رومن زبان میں نہ لکھیں ،عربی،اردو یا انگلش میں لکھیں۔ 
نمبر۴۔ سوال ان پیج یا ورڈ میں لکھنے کے لیے اے فور پیج کا استعمال کریں
نمبر ۵۔ کسی بھی مسئلے کے جواب کے لئے’’دستی ، ڈاک ، ای میل و غیرہ ‘‘ میں سے صرف ایک ہی ذریعہ استعمال فرمائیں ۔ 

زبانی یا فون پر مسائل معلوم کرنے کاطریقہ اور ادب

نمبر۱۔ مفتی صاحب کے ساتھ ادب و احترام سے گفتگو فر مائیں ، کو ئی بھی ایسا جملہ نہ بو لیں ، جس سے کسی کی بھی تحقیر ہو تی ہو ۔اگر آپ کودین کے بارے میں زیادہ واقفیت نہیں ہے تو زیادہ بحث و مباحثہ اوردلیل کا مطالبہ نہ کریں ۔ سوال کے جواب میں اطمینان اور تشفی نہ ہو تو دوبارہ دریافت کر لیں ۔
نمبر۲۔ مفتی صاحب اگر جلدی میں یا کسی کام ،بات و غیرہ میں مشغول ہو ں تو ایسی حالت میں ان سے مسئلہ نہ پوچھیں ، بلکہ فر اغت اور ذہنی یکسوئی کا انتظار کریں۔کیونکہ مسئلہ بتانے میں  بڑی نزاکتوں کا خیال رکھنا انتہائی ناگزیر ہو تا ہے ۔
نمبر۳۔صاحب ِمعاملہ اپنا مسئلہ خود معلوم کرے یا صورتِ مسئلہ مکمل سمجھ کر دیانت داری کے ساتھ درست بیان کریں ۔ بالواسطہ پو چھے گئے سوالات عموماً واضح نہیں ہو تے،جس کی وجہ سے درست جواب دینا مشکل ہوجاتاہے۔
نمبر۴۔خواتین اپنے محرموں کے ذریعہ سوال پوچھنے کا اہتمام کریں ۔
نمبر۵۔فون پر ضروری اور مختصر بات کریں ۔
نمبر۶۔دار الافتا کے اوقات میں ہی فون پر رابطہ کریں ۔

جواب لکھنے کی ترتیب اور ضوابط

ابتدائی مرحلہ 

سوال میں پہلے غور و خوض اور مشورہ ہو تا ہے ، قابلِ تنقیح ہو تو سائل سے مزید سوالات کر کے صورتِ مسئلہ کو واضح کیا جاتا ہے،پھراس سے متعلق قرآن و حدیث کامطالعہ اور ہر رخ سے تحقیق ہو تی ہے ، مواد جمع کرکے، اللہ تعالیٰ سے مدد چاہتے ہو ئے اور اس پر توکل کرتے ہو ئے جواب کے لئے ایک تعبیر لکھی جاتی ہے اور اکثر اس کو حوالہ جات سے مزین کیا جاتاہے ۔

دوسرامرحلہ 

اس کے بعد مجیب سے بڑے مرتبہ والوں (سینیر)میں سے کوئی سے  دومفتی صاحب اس کو پڑھتے ہیں،قابلِ اصلاح ہو نے کی صورت میں اصلاح فر ماتے ہیں ۔ یہ اصلاح اور تصدیق کا مرحلہ ناگزیرہو تا ہے۔اصلاح ِ فتویٰ میں تین مراحل ہیں جو مبتدی رفقاء کے لئے ناگزیر ہیں ۔ 

تیسرا مرحلہ 

پھر اس کو حتمی شکل دی جا تی ہے ،تصدیق و تائید کر نے والوں سے  دستخط کروائے جا تے ہیں ۔ سب سے پہلے سینیرمفتی صاحب دستخط کرتے ہیں پھر ان سے نیچے کے حضرات اپنے دستخط ثبت فرماتے ہیں ۔   لکھنے والا علمی لحاظ سے جتنا بڑا ہو گا،اس کے لئے اصلاح کے مراحل اتنے کم ہوں گے ، اگرچہ مشورہ اور تائید کئی رفقاء سے کی جاتی ہے ۔ 
چوتھا مرحلہ 
آخرمیں دار الافتاکی مہر اور اس جواب پر ایک مخصوص نمبرلگا کر رجسٹرڈ کر لیا جاتا ہے اور اس کی فوٹو کاپی کو دار الافتاء کے ریکارڈ میں محفو ظ کر کے اصل کو سائل کے نام جاری کر دیاجا تا ہے ۔