الف :کمپنی نےکچھ گاڑیا ں کار اجارہ کے تحت میزان بینک سے لیز پرلی ہوئی ہیں جس میں گاڑی کی کل رقم کے بقدر تمام قسطیں پو ری ہونے پر گاڑی کامالک میزان بینک کی بجائے اجارہ کروانے والا بن جاتاہے اور بینک گاڑی کے کاغذات بھی اس کے نام ٹرانسفر کر وادیتی ہے اس لیزنگ کا عر صہ 3/4/5/سال کا ہو تاہے اس دوران میں گاڑی کی منٹینس مثلاًموبل آئل /ٹیوننگ /سروس اور چھوٹی موٹی مرمت جوکہ تکافل کلیم قبول نہیں کرتی شرعاًان چیزوں کے اخراجات کس فریق کے ذمہ ہیں؟ یادونوں پارٹیاں جس قدر گاڑی کے مالک ہیں اس تناسب سے منٹینس کا خرچہ بر داشت کرنے کے ذمہ دار ہیں؟ بینک منٹینس کے اخراجات اجارہ پر لینے والے کے ذمہ ڈالنے کی شرط عائد کرے تو کیا بینک کی یہ شرط شرعاًجائز ہے ؟
ب:اسی طرح اجارہ پر لی گئی گاڑی کے سالانہ ٹوکن، ٹیکس وغیرہ کا شرعی مسئلہ بھی واضح فرمادیں ۔ ج:کیا بینک کی شرط میں سے کوئی کلائنٹ (گاہک )کسی شرط سے استثناءلے سکتا ہے ؟
الف:اسلامی مالیاتی اداروں میں اسلامک فائنینشل لیز میں گاڑی کی ملکیت مالیاتی ادارہ کی ہو تی ہے ۔اور اس پر آنے والے اخراجات کے بارے میں شریعت کا ضابطہ یہ ہے کہ جب اجارہ طویل المیعاد ہو،جس میں طویل مدت تک جاری رہنے کی وجہ سےعین موجرہ(کرایہ پر لی گئی چیز)کی معمولی مرمت وغیرہ کے اخراجات کا کو ئی معتدبہ فائدہ (اکثر فائدہ )اجارہ ختم ہونے کے بعد موجر کو نہ پہنچتاہو اور اس کا غیر معمولی اثر بھی باقی نہ رہے اور اس میں لوگوں کا عرف و تعامل بھی ہونیز وہ اخراجات معمول کے مطابق اس کے استعمال سے ہوں اور کرایہ پر دی گئی چیز کےعمل(ورکنگ)سےمتعلق ہوں توایسےتمام اخراجات عرف وتعامل کی وجہ سےشرعاًمستاجر (لیسز) کی ذمہ داری ہے۔اور مقتضائے عقد کے خلاف نہ ہو نے کی وجہ سے مذکورہ اخراجات کی شرط مستاجرپر عائد کرنا درست ہے ۔اس کے علاوہ کسی قدرتی آفت کا شکارہو نے کے تمام تر نقصانات موجر(لیسر)کے ذمہ ہوتے ہیں ۔اس لئے مذکورہ صورت میں گاڑی کی منٹینس سے متعلقہ تمام تر اخراجات (گاڑی کی سروس ،ٹیوننگ ، پٹرول و آئل کا خرچہ ) شرعاًمستاجر کے ذمہ ہیں ،اور بنک کا اس بات کی وضاحت کرنااور شرط لگانا درست ہے ۔
ب: اگر بنک کے ساتھ کیے ہو ئے معاہدہ کے مطابق یہ خرچ مستاجر (کرایہ دار)کے ذمہ ہے تو اس صورت میں اوپر ذکر کردہ تفصیل کے مطابق سالانہ ٹوکن کی ادائیگی مستاجرکو کرنی ہو گی ۔
ج: اگر بنک کے ملازمین کو استثنا ء دینے کا اختیار حاصل ہے تو ان سے باہمی رضامندی سے شرعی حدود میں رہتے ہوئےاستثناء لیا جاسکتا ہے ۔(غیر سودی بینکاری ، مفتی محمد تقی عثمانی(ص۲۶۴)معارف القرآن کراچی)